کراچی میں 'زہریلی' گیس کا مسئلہ، شہریوں کا احتجاج، حکومت سے جواب طلب

اپ ڈیٹ 18 فروری 2020
شہریوں نے جیکسن مارکیٹ میں احتجاج کیا—فوٹو:شاہ زیب احمد
شہریوں نے جیکسن مارکیٹ میں احتجاج کیا—فوٹو:شاہ زیب احمد

کراچی کے علاقے جیکسن مارکیٹ میں شہریوں نے احتجاج کیا اور علاقے میں زہریلی گیس کے اخراج کے حوالے سے حکومت سے جواب طلب کرلیا جس کے نتیجے میں 14 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔

جیکسن مارکیٹ میں احتجاج کرنے والے شہریوں نے وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی سے مستعفی ہونے کا بھی مطالبہ کیا۔

A photo posted by Instagram (@instagram) on

قبل ازیں کمشنر کراچی افتخار شالوانی نے کہا تھا کہ ایک جہاز سے سویابین یا اسی طرح کی کوئی چیز اتاری جارہی تھی جس سے زہریلی گیس کے اخراج کے حوالے سے تحقیقات کی جاسکتی ہیں۔

علی زیدی نے کمشنر کراچی کے بیان کو ‘مکمل طور پر مسترد’ کردیا، اسی طرح کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کے چیئرمین جمیل اختر نے بھی گیس پورٹ سے خارج ہونے کے تاثر کو رد کردیا۔

دوسری جانب جیکسن مارکیٹ میں اکثر دکانیں دوپہر تک بند رہیں لیکن شہریوں کی بڑی تعداد احتجاج کے لیے علاقے میں جمع ہوئی جن میں سے چند افراد نے سرجیکل ماسک پہنے ہوئے تھے یا پھر اپنے چہرے کو کپڑے سے ڈھانپ رکھا تھا۔

مزید پڑھیں:کراچی میں 'زہریلی گیس' کے اخراج سے اموات کی تعداد 14 ہوگئی

جیکسن مارکیٹ میں احتجاج کے باعث کراچی بندرگاہ کو کے پی ٹی آئی انٹرچینج کو ملانے والے نیپیئر مال روڑ پر ٹریفک بدترین طریقے سے جام ہوئی۔

ابتدائی رپورٹس

کیماڑی میں دو روز قبل پراسرار گیس کے اخراج سے متاثرہ افراد کو جب ہسپتال منتقل کیا گیا تو حکام اس طرف متوجہ ہوئے لیکن تاحال اس کے محرکات کا سراغ لگانے میں ناکام ہیں۔

کمشنر کراچی افتخار شالوانی گزشتہ روز سندھ کابینہ کو آگاہ کیا تھا کہ جس جہاز سے سویابین یا اسی طرح کی چیز اتاری گئی تھی جو زہریلی گیس کی ممکنہ وجہ ہوسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘جب جہاز سے سامان اتارنے کا کام روک دیا جاتا ہے تو گیس میں کمی آتی ہے’۔

یہ بھی پڑھیں:کراچی میں گیس لیکیج کی وجوہات جاننے کیلئے تحقیقات جاری

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے گزشتہ روز حکام کو ہدایات دی تھیں کہ متاثرہ علاقے سے لوگوں کو دوسرے مقام پر منتقل کردیا جائے۔

‘سانس لینے میں دشواری’

کیماڑی کے رہائشیوں نے گیس کے باعث سانس لینے میں دشواری سمیت دیگر تکالیف کی شکایت کی۔

ڈان کو کراچی پورٹ کے قریب دکان چلانے والے راشد خان کا کہنا تھا کہ ‘زہریلی گیس کے باعث ناک میں جلن، آنکھوں میں تکلیف اور سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘گزشتہ شب علاقے میں دھند سے پھیل گیا تھا اور ہم سانس نہیں لے پارہے تھے اور کوئی بدبو بھی نہیں تھی’۔

راشد خان کا بیان وفاقی وزیر علی زیدی کے دعووں کے برعکس تھا جن کا اصرار ہے کہ ‘یہ بندرگاہ کے قریبی علاقوں میں معمول کی بات ہے’۔

ریلوے کالونی کے رہائشیوں کی جانب سے بھی اسی طرح کی شکایات کی جارہی ہیں جہاں دو خواتین اسی گیس کے باعث جاں بحق ہوچکی ہیں، جن میں سے ایک 23 سالہ خاتون زہریلی گیس کے باعث گرپڑی تھیں اور بمشکل ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہسپتال میں منتقلی کے دوران دم توڑ گئی تھیں۔

ڈان کو شہریوں نے بتایا کہ علاقے کے کئی رہائشی اپنے رشتہ داروں کے ہاں منتقل ہوچکے ہیں۔

مزید پڑھیں:کراچی: 'زہریلی گیس' سے ہلاکتوں کی تعداد 7 ہوگئی،وزیراعلیٰ کا علاقہ خالی کرانے کا حکم

ریلوے کالونی کے رہائشی اور پاکستان ریلوے کے ملازم ایاز خان کا کہنا تھا کہ گیس کے باعث گلے میں خراش، آنکھوں میں تکلیف اور سانس لینے میں مشکل پیش آرہی ہے۔

ایاز کے مطابق زہریلی گیس کا اخراج رات کے تقریباً ساڑھے 8 بجے سے 9 بجے کے درمیان شروع ہوتا اور شام کو ہی مساجد سے شہریوں کو اپنے گھروں کے دروازے اور کھڑکیاں بند رکھنے کے خصوصی اعلانات کیے جاتے ہیں۔

خیال رہے کہ کیماڑی میں زہریلی گیس سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 14 اور متاثرین کی تعداد 300 کے قریب پہنچ چکی ہے۔

محکمہ صحت سندھ نے 14 اموات کی تصدیق کی اور بتایا کہ 9 افراد ضیاالدین ہسپتال، 2 سول ہسپتال، 2 کتیانہ میمن ہسپتال اور ایک برہانی ہسپتال میں انتقال کرگئے۔

گیس کے اخراج کے محرکات

ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ کے پی ٹی کے علاقے میں کم ازکم 4 افراد گیس کے باعث بے ہوش ہو کر گرنے کی اطلاع ملی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ زیادہ کیسز کچھی پاڑا اور آر جی ریلوے کالونی میں سامنے آئے ہیں۔

فیصل ایدھی نے کہا کہ کم از کم 400 افراد زہریلی گیس سے اب تک متاثر ہوچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کلفٹن سے کئی شہریوں کو پیٹ کے امراض کے باعث ہسپتال منتقل کیا گیا ہے جو گیس کے اخراج کے باعث بیمار ہوئے تھے جبکہ ڈاکٹروں نے فیصل ایدھی کے بیان کی تصدیق نہیں کی۔

فیصل ایدھی کا کہنا تھا کہ ‘اگر کیسز میں آج رات بھی اضافہ ہوتا ہے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ وجوہات سویابین کی وجہ سےنہیں بلکہ کچھ اور ہے’۔

سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) کے عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر خیال کیا جارہا کہ گیس کی وجہ ہائیڈروجن سلفائیڈ ہے تاہم اس کی تصدیق 10 روز میں رپورٹ موصول ہونے پر ہوگی۔

تبصرے (0) بند ہیں