امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کا 2 روزہ دورہ ایسے وقت میں کیا جب مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتِ حال پر بین الاقوامی فورمز پر بھارت دباؤ کا شکار ہے، شہریت کے متنازع قانون، نیشنل رجسٹر آف سٹیزن شپ (این آر سی) اور نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) پر جاری احتجاج ہے، جس کو دبانے کے لیے مودی حکومت نے ہر حربہ آزمایا اور ناکامی پر گجرات ماڈل اپنایا۔

نئی دہلی اور بھارت کے دیگر حصوں میں احتجاج کرنے والوں کو بزورِ طاقت ہٹانے کی کوشش کی گئی۔ جب اس کوشش پر مزاحمت ہوئی تو بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی)، بجرنگ دل اور دیگر انتہا پسند تنظیموں نے ریاستی سرپرستی میں غنڈہ گردی کی انتہا کردی۔ مسلمان نوجوانوں کو سڑکوں پر گھیر کر لاٹھیوں اور پتھروں سے اس قدر مارا کہ کئی جان سے گئے، جبکہ 100 سے زیادہ ہسپتالوں میں لہولہان پڑے ہیں۔ خواتین کو ہراساں کرنا اور مارپیٹ کے واقعات الگ ہیں۔

بی جے پی کے رہنماؤں نے نئی دہلی کے مسلمانوں کو بی جے پی کو ووٹ نہ دینے پر سبق سکھانے کا فیصلہ کیا، یاد رہے کہ وزیرِ داخلہ امت شا دلی پولیس کے انچارج ہیں اس لیے ان کو جوابدہ پولیس دباؤ یا انتقامی کارروائی کے خوف سے تماشائی بنی رہی۔

بی جے پی اور بجرنگ دل کے غنڈوں نے دلی میں مسلم آبادیوں کا گھیراؤ کیا، گھروں میں گھس کر لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کی، مسلمان عزت اور جان بچانے کے لیے اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کردیے گئے ہیں اور حالات میں بہتری کے اب تک کوئی اشارے نہیں مل رہے اور امریکی صدر نے بھی اس پر کھل کر بات سے گریز کیا ہے۔

امریکی صدر دورہ بھارت کے لیے روانہ ہونے لگے تو امریکی عہدیداروں نے حسبِ روایت صحافیوں کو فون پر بریفنگ دی اور نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایجنڈا اور ممکنہ بات چیت پر اہم پوائنٹس بتائے۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ مذہبی آزادیوں پر دنیا بھر میں خودساختہ امپائر امریکا کھل کر بات کرے گا اور امریکی عہدیداروں کی بریفنگ میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا گیا تھا لیکن احمد آباد میں 'نمستے ٹرمپ' ایونٹ پر خوشی سے نڈھال امریکی صدر نے دورے کا پہلا دن مودی کی تعریفوں میں صرف کیا اور گاندھی کے گھر میں بنے آشرم کے دورے کے دوران بھی مہمانوں کی کتاب پر تاثرات میں گاندھی کو بھول کر مودی کا شکریہ ادا کرکے دستخط کردیے۔

دورے کے دوسرے دن مودی سے ملاقات کے بعد میڈیا بریفنگ میں امریکی صدر نے شہریت قانون پر یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ انہوں نے مودی سے بات کی ہے۔ مودی اپنے ملک میں صحافیوں کے سوالات سے گریز کرتے ہیں اس لیے مشترکہ بریفنگ میں سوالات نہیں لیے گئے۔ صدر ٹرمپ نے بعد میں اکیلے پریس کانفرنس کی اور مہمان ملک کے میڈیا کے سوالات کا سامنا کیا۔

اس موقع پر دوبارہ شہریت قانون پر بات ہوئی تو صدر ٹرمپ نے جواب دہرایا اور مظاہرین کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر سوال ہوا تو امریکی صدر ایک بار پھر کنی کترا گئے اور کہا کہ بھارت اس معاملے میں بہتر فیصلہ کرے گا۔ یوں امریکی صدر نے بھارت کے معاملات میں براہِ راست مداخلت کے تاثر سے گریز کیا۔ لیکن امریکا کا مذہبی آزادیوں کا کمیشن اور امریکی کانگریس اس معاملے پر بھارت پر دباؤ اس وقت تک بڑھاتے رہیں گے جب تک بھارت امریکا کے تجارتی اور اسٹریٹیجک مفادات کو پورا کرنے یا ان مفادات میں ساتھ دینے کی ہامی نہیں بھرے گا۔ ساتھ ہی واشنگٹن اس حد تک جانے سے بھی گریز کرے گا جہاں مودی اور قوم پرستوں کی انا کو ٹھیس لگنے کا اندیشہ ہو۔

کشمیر اور پاکستان کے بارے میں امریکی صدر نے جو مؤقف اپنایا اس پر پاکستان کا میڈیا بہت پُرجوش نظر آیا جبکہ بھارتی میڈیا نے احمد آباد اسٹیڈیم میں پاکستان کا ذکر کیے جانے پر شدید غصے کا اظہار کیا۔ دونوں ملکوں کے میڈیا میں جذبات کا اظہار عوامی خواہشات کا عکاس تو ہوسکتا ہے لیکن اس پر شادیانے بجانے اور جل بھن جانے والے دونوں ہی بلاوجہ جذباتی ہو رہے ہیں۔

امریکی صدر کے دورے کے کئی مقاصد تھے اور اس دورے کے دوران انہوں نے بھارت کے وزیرِاعظم اور بھارتی عوام کو خوش کرنے کے لیے بہت کچھ کہا۔ پاکستان کو بھارتی حکومت اور عوام کے جذبات کے لیے نظر انداز کرنا امریکی مفاد میں نہیں تھا لیکن پاکستانی میڈیا کا اس پر خوش ہونا بھی نہیں بنتا کیونکہ ٹرمپ نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے کردار پر بات ضرور کی لیکن ان کے بیانات میں تضاد آیا۔

احمد آباد میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ پاکستان کے بارڈر پر دہشت گردی کے خلاف امریکا اور پاکستان دونوں مل کر مثبت انداز میں کام کررہے ہیں لیکن مودی کے ساتھ پریس بریفنگ میں ٹرمپ نے کہا کہ پاکستان کی سرزمین پر دہشت گردی کے خلاف مل کر کام کر رہے ہیں۔ پاکستان کی سرزمین کے الفاظ استعمال کرکے ٹرمپ نے مودی کے مؤقف کے قریب ہونے کی کوشش بھی کی۔

کشمیر پر امریکی صدر نے ایک بار پھر ثالثی کی بات کی لیکن اس بار ثالثی پر زور دینے کے بجائے کہا کہ پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر کے حل پر کام کر رہے ہیں۔ امریکی صدر کی طرف سے یہ بیان ایک انکشاف ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے حکمرانوں کی طرف سے ایسا کوئی اشارہ اب تک نہیں ملا۔

ایک ایسے امریکی صدر جو سفارتی معاملات کو بھی ذاتی کاروبار کی طرح چلانے کی شہرت رکھتے ہیں اس دورے کے دوران وزیرِاعظم عمران خان اور مودی دونوں سے دوستی کے دعویدار نظر آئے، لیکن ساتھ ساتھ مودی کو سخت گیر مؤقف رکھنے والا بھی کہا۔

کشمیر پر امریکی صدر سے ثالثی کی امید اور توقعات عبث ہوں گی اور نتائج اسرائیل، فلسطین تنازع کے حل جیسے ہوسکتے ہیں۔ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان اور بھارت کام کر رہے ہیں، امریکی صدر کا یہ بیان زیادہ توجہ طلب ہے۔ کیا امریکی صدر دونوں ملکوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے آمادہ کرچکے ہیں؟ اس کے جواب دونوں ملکوں کی وزارتِ خارجہ ہی دے سکتی ہیں۔

امریکی صدر اس دورے میں بھارت کے ساتھ تجارتی معاہدے کی توقع رکھتے تھے لیکن صدر ٹرمپ اور مودی کا ایجنڈا کسی بھی سمجھوتے میں رکاوٹ ہے۔ صدر ٹرمپ امریکا میں کاروبار کی واپسی چاہنے کے ساتھ ساتھ امریکی مصنوعات پر دنیا میں لاگو ٹیکسوں اور ڈیوٹیز میں کمی چاہتے ہیں جبکہ مودی میک ان انڈیا کا نعرہ لگاتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ امریکا اور دنیا بھر سے کمپنیاں بھارت میں کاروبار کریں اور رعایت لیں۔

امریکی صدر نومبر سے پہلے بھارت کے ساتھ تجارتی معاہدہ چاہتے ہیں تاکہ دوسری مدت کے لیے الیکشن میں وہ اس کارنامے پر ووٹ سمیٹ سکیں۔ امریکی صدر کے دورے سے پہلے شہریت قانون اور مذہبی آزادیوں پر امریکی عہدیداروں کے بیانات بھارت کو دباؤ میں لانے کے لیے تھے۔ امریکی صدر نے بھی پاکستان کے کردار اور شہریت قانون کے معاملات اسی نیت سے اٹھائے ساتھ ہی امریکی صدر پاکستان پر مہربان اس لیے نظر آئے کہ 29 فروری کو دوحہ میں افغان طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط ہونے جا رہے ہیں اور پاکستان نے اس کے لیے سب سے اہم کردار نبھایا۔ اگر صدر ٹرمپ امریکا کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کا کارنامہ لیکر انتخابی میدان میں اترنے کو ہیں تو یہ صرف اور صرف پاکستان کی وجہ سے ہے۔ بھارت نے امریکی صدر کو ان کی مرضی کا تحفہ نہیں دیا۔

امریکی صدر کے اس دورے کا ایک اور مقصد چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا تھا اور اس مقصد میں انہیں جزوی کامیابی ملی ہے۔ بھارت نے امریکا سے اپاچی ہیلی کاپٹروں سمیت 3 ارب ڈالر کا دفاعی سمجھوتہ کیا ہے اور یہ ہیلی کاپٹر بحیرہ ہند میں چین کی طاقت کا مقابلہ کرنے میں مدد دیں گے۔

بھارت روایتی طور پر روس کے ہتھیاروں کا خریدار رہا ہے لیکن اب امریکا روس سے مسابقت کر رہا ہے اور 2008ء سے اب تک بھارت امریکا سے 17 ارب ڈالر کا دفاعی سامان خرید چکا ہے۔

امریکی صدر نے 5جی نیٹ ورک پر بھی مودی سے بات کی۔ 5جی کے معاملے پر دنیا تقسیم ہو رہی ہے اور امریکا اپنے اتحادیوں کو چین سے 5جی ٹیکنالوجی لینے سے منع کر رہا ہے۔ امریکا اور چین کی ٹیکنالوجی کی جنگ میں نہ صرف دنیا بلکہ انٹرنیٹ بھی تقسیم ہونے کو ہے۔ دنیا بھر میں انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر بڑھنے اور مختلف خطوں میں مختلف ریگولیشن بننے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ بھارت نے اس معاملے پر امریکا کو ابھی کوئی یقین دہانی نہیں کروائی کیونکہ بھارت بھی خطے میں کسی ایک ملک کا اثر و رسوخ نہیں چاہتا۔

چین کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کا ایک اور اعلان 4 فریقی ڈائیلاگ کی بحالی اور بلیو ڈاٹ نیٹ ورک پر کام کے آغاز کے بیانات سے ہوتا ہے۔ امریکی صدر نے کہا کہ ہم نے 4 فریقی یعنی بھارت، امریکا، جاپان اور آسٹریلیا ڈائیلاگ کی بحالی پر بھی بات کی۔ اس 4 فریقی فورم کا پہلا وزارتی اجلاس ہوچکا ہے۔

’ہم انسدادِ دہشت گردی، سائبر سیکیورٹی، انڈو پیسفک میں آزادانہ نقل و حرکت کے لیے میری ٹائم سیکیورٹی میں تعاون بڑھانا چاہتے ہیں‘، امریکی صدر کا دورہ بھارت کے دوران یہ بیان درحقیقت بحر ہند میں چین کے اثر و رسوخ کے توڑ کا کھلا اعلان ہے۔ چین نے بحر ہند میں اپنی طاقت بڑھا لی ہے اور بھارت کے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ میری ٹائم سیکیورٹی میں تعاون بڑھایا ہے جو نا صرف بھارت کے لیے خطرناک ہے بلکہ امریکا بھی خطے میں چین کی برتری قبول کرنے کو تیار نہیں۔

امریکی صدر نے کہا کہ بلیو ڈاٹ نیٹ ورک پر امریکا کئی شراکت داروں کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ بلیو ڈاٹ نیٹ ورک کا مقصد اس بات کی ضمانت دینا ہے کہ مستقبل کے انفرااسٹرکچر منصوبے محفوظ، شفاف اور قابلِ احتساب انداز میں تعمیر کیے جائیں اور خطے کے ملکوں کو اعلیٰ معیار کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے نجی شعبہ میں مستحکم اور قابلِ اعتماد آپشن دستیاب ہوں۔

بلیو ڈاٹ نیٹ ورک کا اعلان نومبر 2019ء میں کیا گیا تھا اور اس وقت بھی اس منصوبے کو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا متبادل قرار دیا گیا تھا۔ اگرچہ بلیو ڈاٹ نیٹ ورک کا طریقہ بیلٹ اینڈ روڈ سے بالکل مختلف ہے، جیسے بیلٹ اینڈ روڈ میں چین کے سرکاری بینک منصوبوں کے لیے فنڈز فراہم کرتے ہیں اور بین الحکومتی سطح پر ترقیاتی منصوبے انجام پاتے ہیں لیکن بلیو ڈاٹ نیٹ ورک میں کوئی قرض یا فنڈ نہیں رکھا گیا بلکہ یہ فائیو اسٹار ہوٹلوں کی سرٹیفکیشن جیسا منصوبہ ہے جس میں مختلف منصوبوں کو قابلِ عمل ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا جائے گا جس کی بنیاد پر بین الاقوامی کمپنیاں اور بینک ان منصوبوں کو فنانس کریں گے۔

امریکی صدر کا دورہ بھارت خطے میں تعاون اور مسابقت کی نئی راہیں کھولے گا۔ یہ تعاون امریکا اور بھارت کے درمیان تو ہوگا ہی مگر امریکا خطے میں موجودگی برقرار رکھنے کے لیے خطے کے دوسرے ملکوں کے ساتھ بھی تعاون بڑھانے کی کوشش کرے گا۔

افغانستان میں امن معاہدے کے بعد بھی امریکا کو افغانستان کی تعمیرِ نو اور دہشت گردی کو دوبارہ سر اٹھانے سے روکنے کے لیے تعاون درکار ہوگا۔ بھارت افغانستان میں کردار چاہتا ہے جو اسے فوری نہیں مل سکا لیکن بلیو ڈاٹ نیٹ ورک کے ذریعے گلوبل انفرااسٹرکچر کے نام پر جو منصوبے بنیں گے ان میں بھارت کو بھی حصہ ملے گا اور افغانستان بلیو ڈاٹ نیٹ ورک کے لیے زیادہ اہم ہوگا کیونکہ جنگ سے تباہ حال ملک کو نئے سرے سے تعمیر کرنا بہت بڑا منصوبہ ہے اور تمام ملک اس منصوبے میں اپنا حصہ لینے کو تیار ہیں۔

پھر یہ مسابقت امریکا اور چین کے درمیان بھی بڑھے گی جو ٹیکنالوجی سے انفرااسٹرکچر منصوبوں تک ہر شعبے میں ہوگی۔

تبصرے (3) بند ہیں

شاہد اقبال Feb 26, 2020 07:19pm
سر جی بہت اعلیٰ. اللہ کرے زور قلم اور زیادہ. آپ نے بحرہند اور خطے میں ہونے والی پیش رفت کے دریا کو کوزے میں بند کردیا.
Waseem Feb 26, 2020 07:38pm
امریکا کا مذہبی آزادیوں کا کمیشن اور امریکی کانگریس اس معاملے پر بھارت پر دباؤ اس وقت تک بڑھاتے رہیں گے جب تک بھارت امریکا کے تجارتی اور اسٹریٹیجک مفادات کو پورا کرنے یا ان مفادات میں ساتھ دینے کی ہامی نہیں بھرے گا۔
AZAM AKBAR Feb 26, 2020 09:51pm
Trump aur Modi aik sikke (coin) ke do rukh hain.