بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے، ترک صدر

اپ ڈیٹ 28 فروری 2020
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ بھارت کے ساتھ ہی نئی دہلی میں متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے دوران پرتشدد واقعات پیش آئے۔ — اے ایف پی:فائل فوٹو
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ بھارت کے ساتھ ہی نئی دہلی میں متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے دوران پرتشدد واقعات پیش آئے۔ — اے ایف پی:فائل فوٹو

ترک صدر رجب طیب اردوان نے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں فسادات میں 'مسلمانوں کے قتل عام' پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت ایسا ملک بن گیا ہے جہاں قتل عام ہورہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انقرہ میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'بھارت اس وقت ایسا ملک بن گیا ہے جہاں قتل عام پھیل رہا ہے، کس کا قتل عام؟، مسلمانوں کا قتل عام، کون کر رہا ہے؟، ہندو'۔

انہوں نے مسلمانوں پر حملہ کرنے والے گروہ پر الزام لگایا کہ انہوں نے نجی ٹیوشن میں پڑھنے والے بچوں پر 'لوہے کی راڈ سے حملے کیے تاکہ وہ انہیں قتل کردیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ لوگ عالمی امن کو کیسے ممکن بنائیں گے، یہ ناممکن ہے، ان کی بہت بڑی آبادی ہے جس کی وجہ سے جب یہ تقریریں کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم مضبوط ہیں، (تاہم) یہ مضبوطی نہیں' ہے۔

واضح رہے کہ بھارتی دارالحکومت میں کشیدگی عروج پر ہے جہاں ہزاروں پولیس اور پیرا ملٹری اہلکار سڑکوں پر پیٹرولنگ کر رہے ہیں اور کئی روز سے جاری اس تشدد کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں 38 افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور ان میں زیادہ تر مسلمان تھے۔

اگر ان واقعات کی بات کریں تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ بھارت کے ساتھ ہی نئی دہلی میں متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے دوران پرتشدد واقعات پیش آئے تھے۔

گرو تیگ بہادر (جی ٹی بی) ہسپتال کے ڈائریکٹر سنیل کمار کا کہنا تھا کہ ان کے ہسپتال میں 34 ہلاکتیں رجسٹرڈ کی گئیں جبکہ 'یہ تمام ہلاکتیں گولی لگنے کی وجہ سے ہوئی تھیں'۔

ادھر لوک نائک ہسپتال کے چیف ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ وہاں 3 افراد ہلاک ہوئے، ساتھ ہی اسی ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کشور سنگھ کا کہنا تھا کہ 10 افراد کی حالت نازک ہے۔

مزید پڑھیں: امریکی سفیر کا دہلی فسادات پر 'محتاط' مذمتی بیان

علاوہ ازیں حکام کا کہنا تھا کہ ایک اور متاثرہ شخص جگ پرویش چندر ہسپتال میں ہلاک ہوا۔

دوسری جانب دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کا کہنا تھا کہ جھڑپ کے دوران ہلاک ہونے والے افراد، زخمیوں یا جن کے کاروبار یا گھر تباہ ہوگئے انہیں معاوضہ ادا کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ علاقے میں غذا اور دیگر معاونت بھی فراہم کی جائے گی۔

تاہم پولیس کا کہنا تھا کہ انہوں نے 500 افراد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا ہے اور 'بین البرادری ہم آہنگی' کے لیے شہر بھر میں 'امن کمیٹی اجلاس' کے انعقاد کا آغاز کردیا ہے۔

خیال رہے کہ ابتدائی طور پر ہنگامہ آرائی کا آغاز اتوار 23 فروری کی رات کو ہوا تھا جب تلوار اور بندوقوں سے لیس گروہوں نے کئی افراد کے گھروں اور گاڑیوں کو نذرآتش کردیا اور گھر، دکانیں، 2 مساجد، 2 اسکول، ٹائر کی مارکیٹ اور پیٹرول پمپ کو آگ لگادی جبکہ ان واقعات میں 200 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔

دہلی پولیس کے ترجمان مندیپ رندھاوا نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ رات کے وقت 'کوئی بڑا سانحہ' نہیں ہوا جبکہ شہر کے چیف فائر افسر اتول گارگ کا کہنا تھا کہ انہیں 19 مرتبہ طلب کیا گیا۔

بی جے پی رہنماؤں کے مظاہرین کے خلاف نعرے

اس سے قبل دسمبر میں بھارت میں متنازع شہریت قانون کی منظوری کے بعد شمالی ریاست اتر پردیش میں کم از کم 30 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں سے زیادہ تر پولیس کی کارروائی سے ہلاک ہوئے تھے۔

خیال رہے کہ اتر پردیش میں بڑی تعداد میں مسلمان آبادی رہتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت کا امریکا پر دہلی فسادات کو سیاسی رنگ دینے کا الزام

یہاں یہ واضح رہے کہ بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کو خدشہ ہے کہ شہریوں کے اندراج کے ساتھ نئے شہریت قانون سے ان کی شہریت منسوخ ہوجائے گی اور انہیں حراستی کیمپوں میں بھیج دیا جائے گا۔

مسلمانوں اور ناقدین کے مطابق آر ایس ایس سے جڑی نریندر مودی کی انتہا پسند جماعت سیکولر بھارت کو ہندو قوم بنانا چاہتی ہے۔

تاہم ان کی جماعت ان الزامات کو مسترد کردی یے لیکن حالیہ ہفتوں میں بی جے پی کے سیاست دانوں نے دہلی انتخابات کی مہم کے دوران مظاہرین کو 'ملک دشمن' اور 'جہادی' قرار دیا تھا۔

ایک بی جے پی رہنما پرویش ورما کا کہنا تھا کہ 'مظاہرین آپ کے گھر میں داخل ہوسکتے ہیں اور آپ کی بہنوں کا ریپ اور قتل کرسکتے ہیں جبکہ ایک اور انوراگ ٹھاکر نے عوام سے 'غداروں کو گولی مارو' کا نعرہ لگوایا تھا۔

بی جے پی کے ایک اور سیاست دان کپل مشرا کی جانب سے ہندوؤں کو شمال مشرقی دہلی میں دھرنے کو ختم کرانے کی کال ہی اس حالیہ فسادات کی وجہ سمجھی جارہی ہے۔

بدھ کے روز دہلی ہائی کورٹ کے جج ایس مرلی دھار نے پولیس پر تنقید کرتے ہوئے ان سے بی جے پی کے سیاست دانوں کے خلاف تشدد برپا کرنے کی تحقیقات کرنے کا کہا تھا۔

بعد ازاں اسی رات جج مرلی دھار کا دوسری ریاست کی عدالت میں تبادلہ کردیا گیا تھا جس پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر شدید تنقید دیکھنے میں آئی تاہم وزیر قانون روی شنکر کا کہنا تھا کہ یہ 'معمول کا تبادلہ' تھا۔

ادھر اقوام متحدہ کی سربراہ برائے انسانی حقوق مچل بیچلیٹ نے بھارتی سیاسی رہنماؤں سے 'تشدد سے گریز کرنے' کا کہا جبکہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) بھارت میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کی مذمت کی۔

تاہم یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نئی دہلی میں نیوز کانفرنس کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ سے جب اس بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا تھا کہ 'یہ بھارت کا معاملہ ہے' اور انہوں نے نریندر مودی کے مذہبی آزادی پر بیانات کو سراہا تھا۔

امریکا رد عمل

علاوہ ازیں امریکا نے انتہائی محتاط انداز میں بھارت پر زور دیا کہ جو لوگ مذہبی فسادات کے پیچھے ہیں وہ خود کو تشدد سے دور رکھیں۔

مزید پڑھیں: نئی دہلی میں مذہبی فسادات پر بولی وڈ شخصیات کا اظہار افسوس

امریکی نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی وسطیٰ ایشیائی امور ایلس ویلز نے ٹوئٹ میں کہا کہ 'نئی دہلی میں مقتولیں اور زخمیوں کے ساتھ ہماری ہمدردیاں ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے امن کی بحالی کا تقاضہ کرتے ہیں'، ساتھ ہی انہوں نے زور دیا کہ تمام فریقین امن برقرار رکھیں اور تشدد کا راستہ اپنانے سے گریز کریں۔

امریکا میں صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کے مد مقابل کھڑے ہونے والے برنی سینڈرز نے 'بڑے پیمانے پر پھیلانے مسلمان مخالف تشدد' پر ٹرمپ کے رد عمل پر تنقید کی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ٹرمپ نے رد عمل دیا کہ یہ بھارت کا معاملہ ہے، یہ انسانی حقوق پر قیادت کی ناکامی ہے'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں