وکلا تنظیموں کا حکومت سے جسٹس عیسٰی کیخلاف ریفرنس واپس لینے کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 28 فروری 2020
بیان میں الزام عائد کیا گیا کہ ریفرنس کا مقصد عدلیہ کو تقسیم کرنا تھا—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سئٹ
بیان میں الزام عائد کیا گیا کہ ریفرنس کا مقصد عدلیہ کو تقسیم کرنا تھا—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سئٹ

اسلام آباد: وکلا کی نمائندگی کرنے والی 2 تنظیموں نے حکومت سے فوری طور پر سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس واپس لینے کا مطالبہ کردیا۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے صدر سید قلب علی اور پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے نائب چیئرمین عابد ساقی نے ایک صفحے پر مشتمل بیان جاری کرتے ہوئے حکومت سے جتنی جلد ممکن ہو ریفرنس واپس لینے کا مطالبہ کیا۔

بیان میں کہا گیا کہ ’موجودہ جج کے خلاف صدارتی ریفرنس کے پسِ پردہ بدنیتی پر مبنی ارادے اور محرکات مکمل طور پر قوم پر آشکار ہوچکے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس میں حکومت کو کُل وقتی وکیل مقرر کرنے کا حکم

بیان میں الزام عائد کیا گیا کہ ریفرنس کا مقصد عدلیہ کو تقسیم کرنا تھا جس میں ناکامی پر حکومت اب وکلا برادری کو تقسیم کرنے پر عمل پیرا ہے۔

مذکورہ بیان کے مطابق ’سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان کا استعفیٰ اور نو تعینات اٹارنی جنرل بیرسٹر خالد جاوید خان کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں حکومت کی پیروی سے انکار اس سازش کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے اس لیے اس ریفرنس کی پیروی کے لیے کچھ باقی نہیں بچا‘۔

خیال رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس زیر التوا ہے لیکن کونسل کی کارروائی اس لیے روک دی گئی تھی کیوں کہ جسٹس قاضی فائز کے خلاف ریفرنس کی کارروائی روکنے کی درخواست سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے‘۔

مزید پڑھیں: وزیر اعظم کو پہلے ہی کہہ دیا تھا جسٹس عیسیٰ کیس نہیں لڑوں گا، اٹارنی جنرل

دونوں تنظیموں کی جانب سے مشترکہ بیان سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ کی جانب سے 24 فروری کو وفاقی حکومت کو دی گئی ہدایات کی روشنی میں سامنے آیا جس میں کہا گیا تھا کہ اس وکیل کو مقرر کیا جائے جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیس کی پیروی کے لیے مکمل تیار ہو۔

مذکورہ ہدایات اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کے وفاقی حکومت کی جانب سے اس کیس کی پیروی سے معذرت اور وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی جانب سے وفاقی حکومت کی نمائندگی کرنے کی خواہش پر وکلا تنظیموں کے اعتراض کے بعد دی گئیں۔

اپنے حکم میں عدالت عظمیٰ نے واضح کیا کہ وفاقی حکومت کا مرکزی وکیل نہ تو وزیر قانون ہونا چاہیے نہ اٹارنی جنرل اس لیے حکومت کو 30 مارچ کو ہونے والی کیس کی آئندہ سماعت کے لیے مکمل تیار اور کُل وقتی وکیل مقرر کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: اٹارنی جنرل تنازع، حکومت نے جسٹس عیسٰی کیس میں التوا مانگ لیا

ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ اگر یہ ممکن نہ ہو تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمٰن فل کورٹ کے سامنے حکومت کی نمائندگی کریں گے تاہم وزیر قانون بھی کیس میں نامزد ہونے کی وجہ سے 10 رکنی بینچ کے سامنے پیش ہوں گے۔

اس سلسلے میں سید قلب حسن نے وزیر قانون کی جانب سے حکومت کی پیروی کرنے کی خواہش پر اعتراض کرتے ہوئے نشاندہی کہ کہ پاکستان لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسل رولز 1976 کے رول نمبر 108 کے تناظر میں ان کا پریکٹسنگ سرٹیفکیٹ معطل ہوچکا ہے۔


یہ خبر 28 فروری 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں