طالبان کا قیدیوں کی رہائی تک بین الافغان مذاکرات نہ کرنے کا اعلان

02 مارچ 2020
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے قیدیوں کی رہائی کے مطالبے کو مسترد کردیا تھا — فائل فوٹو / اے ایف پی
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے قیدیوں کی رہائی کے مطالبے کو مسترد کردیا تھا — فائل فوٹو / اے ایف پی

طالبان ترجمان کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے 5 ہزار قیدی رہا نہیں کیے جاتے تب تک وہ بین الافغان مذاکرات میں حصہ نہیں لیں گے۔

امریکا اور طالبان کے درمیان ہفتے کو ہونے والے معاہدے کے مطابق دونوں فریقین نے اعتماد سازی کے اقدام کے طور پر جنگی و سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق معاہدے کے تحت 10 مارچ تک طالبان کے تقریباً 5 ہزار قیدیوں اور افغان حکومت کے تقریباً ایک ہزار قیدیوں کو رہا کیا جانا ہے۔

تاہم افغانستان کے صدر اشرف غنی نے، جو امریکا ۔ طالبان مذاکرات کا حصہ نہیں تھے، اس مطالبے کو مسترد کردیا تھا۔

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے 'رائٹرز' کو بتایا کہ 'ہم بین الافغان مذاکرات کے لیے پوری طرح تیار ہیں لیکن اس کے لیے اپنے 5 ہزار قیدیوں کی رہائی کا انتظار کر رہے ہیں۔'

انہوں نے کہا کہ 'اگر ہمارے 5 ہزار قیدی رہا نہیں کیے جاتے تو کوئی بین الافغان مذاکرات نہیں ہوں گے۔'

یہ بھی پڑھیں: امن معاہدے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ ذاتی طور پر طالبان سے ملنے کے خواہاں

واضح رہے کہ امریکا نے امید کا اظہار کیا تھا کہ افغانستان میں مستقل سیاسی تصفیے اور سیز فائر کے لیے مذاکرات کا آغاز جلد ہوگا، تاہم مغربی سفارتکاروں اور تجزیہ کاروں کو آگے کے مراحل میں بھرپور چیلنجز نظر آرہے ہیں۔

اشرف غنی نے اتوار کو کہا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قیدیوں کی رہائی کے لیے نہیں کہا ہے اور قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر جامع امن منصوبے کے حصے کے طور پر بات ہونی چاہیے۔

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ '5 ہزار قیدیوں کی فہرست میں بیشتر وہ ہیں جنہیں امریکی فوج نے گرفتار کیا اور انہیں افغان حکومت کی جیلوں میں رکھا گیا ہے، جبکہ ان میں سے اکثر بیمار اور بزرگ قیدی ہیں۔'

انہوں نے کہا کہ دوحہ معاہدے سے قبل سات یوم تک کشیدگی میں کمی کا منصوبہ باضابطہ طور پر ختم ہوچکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم اس طرح کی رپورٹس موصول ہو رہی ہیں کہ لوگ کشیدگی میں کمی سے خوش ہیں اس لیے ہم ان کی یہ خوشی تباہ نہیں کرنا چاہیے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنی ملٹری کارروائیاں اس سطح پر نہیں لے جائیں گے جس سطح پر یہ پہلے تھیں۔'

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ 'یہ سرگرمیاں اس سطح پر کبھی بھی پہنچ سکتی ہیں، ایک گھنٹے بعد، آج رات کو، کل یا دو روز بعد۔' خیال رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد تحریری معاہدے کے نتیجے میں افغانستان میں 18 سالہ جنگ کے خاتمے کے قوی امکانات ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوگیا،14 ماہ میں غیر ملکی افواج کا انخلا ہوگا

معاہدے کے تحت امریکا 135 روز میں افغانستان میں اپنی فوج 13 ہزار سے کم کرکے 8 ہزار 600 کرے گا جبکہ اس کی اتحادی افواج کی تعداد بھی بتدریج کم کی جائے گی۔

طالبان کی طرف سے معاہدے میں افغانستان کی سرزمین کسی دہشت گرد گروپ کی جانب سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

امریکا اور افغان حکومت کے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کا مکمل انخلا 14 ماہ میں مکمل ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں