عدلیہ نے ججز کی تعیناتی میں پارلیمان کا اختیار ختم کیا، بلاول بھٹو

اپ ڈیٹ 07 مارچ 2020
لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز میں منعقدہ مباحثے سے بلاول بھٹو نے خطاب کیا —تصویر:فیس بک
لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز میں منعقدہ مباحثے سے بلاول بھٹو نے خطاب کیا —تصویر:فیس بک

لاہور: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے الزام عائد کیا ہے کہ 2010 میں عدلیہ نے اس وقت کی حکومت پر 19ویں آئینی ترمیم منظور کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جس کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تعیناتی میں پارلیمانی کمیٹی کا کردار ختم ہوگیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز میں ’آئین کی 18ویں ترمیم اور وفاقیت‘ کے عنوان سے منعقدہ مباحثے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ '18ویں ترمیم کے تحت ہماری حکومت نے ججز کی تعیناتی کے لیے پارلیمانی کمیشن متعارف کروایا تھا لیکن عدلیہ نے 19ویں ترمیم کے تحت پارلیمانی کمیشن کا کردار زبردستی ختم کروادیا‘۔

اُس وقت کی پی پی پی حکومت کی جانب سے عدلیہ کے دباؤ کے آگے جھکنے کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا ہوتا تو عدلیہ 18ویں ترمیم پر نظر ثانی (اور کمزور) کرسکتی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان نے نواز شریف کو خود لندن بھیجا، اب وہ قوم کے سامنے جھوٹ نہ بولیں، بلاول

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو ایک مناسب وقت آنے پر 19ویں ترمیم پر نظر ثانی کرنا پڑے گی۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ ملک میں بدعنوانی عروج پر ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اسے چیک کرنا احتساب نہیں انتقام ہے۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’نیب صرف حکومت کے مخالفین کا احتساب کررہا ہے، نواز شریف ہمارے مخالف ہیں لیکن انتقام کا ہدف ہیں، عمران خان نے خصوصی احکامات کے ذریعے کاروباری افراد اور بیوروکریٹس کو احتساب کے نظام سے خارج کردیا ہے، وہ صرف سیاستدانوں کو بدعنوان سمجھتے ہیں اور وہ بھی اپوزیشن جماعتوں کے سیاستدانوں کو‘۔

چیئرمین پی پی پی کا کہنا تھا کہ وہ شفاف طریقے سے معاشرے کے تمام طبقات کے لیے احتسابی عمل کی حمایت کرتے ہیں، اس کے لیے ’ایسا نظام ہونا چاہیے جس میں سیاستدانوں، ججز، جنرلز، بیوروکریٹس اور کاروباری افراد کو احتساب کے لیے طلب کیا جاسکے‘۔

مزید پڑھیں: لندن پلان کی خبریں سازش کا حصہ ہیں، بلاول بھٹو زرداری

18 ویں آئینی ترمیم کا دفاع کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب صوبوں کو انتظامی اور مالیاتی اختیارات دیے گئے تو علیحدگی پسند تحریکیں ماند پڑ گئیں اس کے علاوہ اختیارات ملنے کے بعد وفاقی یونٹس کی صورتحال بہتر ہوئی جبکہ اس اقدام نے وفاق کو بھی مضبوط کیا۔

دفتر شاہی پر سخت تنقید کرتے ہوئے چیئرمین پی پی پی کا کہنا تھا کہ یہ غلط فہمی ہے کہ وفاقی بیوروکریسی منتخب نمائندوں سے زیادہ سوجھ بوجھ رکھنے والی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی بیوروکریسی صرف قرضوں کی واپسی دفاعی منصوبوں میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتی ہے اور صحت اور تعلیم کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں ہوتی۔

بلاول بھٹو نے دعویٰ کیا کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے حکمران مفت طبی سہولیات فراہم کرنے میں دیگر وفاقی یونٹس سے آگے ہیں جبکہ وفاقی حکومت نے بھی عدالتی احکامات کے باجود سندھ کے صحتی اداروں کو لینے سے انکار کردیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نہیں چاہتی کہ سی پیک سے بلوچستان کے عوام کو فائدہ پہنچے، بلاول بھٹو

ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ وہ اس حقیقت سے اختلاف نہیں کرتے کہ کراچی کی 40 فیصد آبادی کچی آبادیوں میں مقیم ہے ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے دارالحکومت میں جس بڑے پیمانے پر ہجرت ہوئی ہے وہ پاکستان کے کسی دوسرے شہر میں نہیں ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کراچی پاکستان کا سب سے خیر مقدمی شہر ہے جہاں نہ صرف صوبے کے اندر بلکہ دیگر صوبوں سے بھی لوگ ہجرت کر کے آتے ہیں یہ لوگ کہاں رہیں گے؟ یہ لوگ تجاوزات اور کچی آبادیوں میں رہتے ہیں اس پر کیا کیا جائے؟ ہمیں انہیں ان کے بنیادی حقوق کے مطابق سہولیات فراہم کرنی چاہیئیں، چاہے وہ انفرا اسٹرکچر ہو صحت یا تعلیم، (تاہم) تاریخ میں کچی آبادیوں کے ساتھ ہمارا رویہ معاندانہ رہا ہے‘۔

بلاول بھٹو نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ عدلیہ نے کچی آبادی کی ریگولرائزیشن پر پابندی عائد کی ہے، ان کے مطابق یہ ناقص پالیسی ہے کیوں کہ کچی آبادیوں میں رہنے والوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

تبصرے (0) بند ہیں