امریکا، روس کا ’اسلامی امارات افغانستان‘ کو قبول کرنے سے انکار

اپ ڈیٹ 09 مارچ 2020
طالبان کا اصرارہے کہ ان کے رہنما ملا ہیبت اللہ ’افغانستان کے واحد قانونی حکمران‘ ہیں—فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان
طالبان کا اصرارہے کہ ان کے رہنما ملا ہیبت اللہ ’افغانستان کے واحد قانونی حکمران‘ ہیں—فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان

واشنگٹن: امریکا اور روس نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ساتھ کام کرنے پر اتفاق کیا ہے کہ عالمی برادری ’اسلامی اماراتِ افغانستان‘ کی بحالی کی حمایت یا اسے قبول نہ کرے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس سلسلے میں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ امریکا اور روس ’ایک سیاسی عمل اور مفاہمت کے بعد افغان اسلامی حکومت میں بین الافغان بات چیت میں متعین ہونے والے اپنے ممکنہ کردار‘ کے حوالے سے طالبان کے عزم کو سراہتے ہیں۔

تاہم انہوں نے ’دہرایا کہ اسلامی امارت افغانستان کو بین الاقوامی برادری اقوامِ متحدہ میں تسلیم نہیں کرے گی، مزید یہ کہ عالمی برادری بھی اسلامی امارت افغانستان کی بحالی کو قبول یا اس کی حمایت نہیں کرے گی‘۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا-طالبان معاہدہ: افغان صدر نے طالبان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ مسترد کردیا

دوسری جانب 2 روز قبل طالبان کی جانب سے بھی ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے اس بات پر اصرار کیا تھا کہ 2001 میں امریکا کی جانب سے کابل حکومت کے خاتمے سے قبل جو ’اسلامی حکومت‘ قائم تھی اسے بحال کرنا ان کا فرض ہے تاہم انہوں نے بھی اسلامی امارت افغانستان کا لفظ استعمال کرنے سے اجتناب برتا تھا۔

واضح رہے کہ امریکی نمائندوں نے مذکورہ بالا مشترکہ بیان کو دوحہ میں طالبان کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے پر دستخط سے ایک روز قبل یعنی 28 فروری کو مسودے کی شکل دی تھی۔

اس معاہدے کے تحت افغانستان سے 14 ہزار امریکی اور نیٹو فورسز کے انخلا کے لیے کچھ شرائط رکھی گئیں تھیں اور کابل میں نئے انتظامی ڈھانچے کی تشکیل کے لیے بین الافغان بات چیت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: امریکا، طالبان معاہدے کی وہ معلومات جو ہم جانتے ہیں

اس کے باجود طالبان کا اصرار ہے کہ ان کے رہنما ملا ہیبت اللہ ’افغانستان کے واحد قانونی حکمران‘ ہیں اورافغانستان میں ’اسلامی حکومت‘ کی بحالی ان کا فرض ہے۔

طالبان نے اپنے بیان میں کہا کہ دوحہ معاہدے کا مقصد افغانستان میں 19 سال سے جاری جنگ کا خاتمہ ہے لیکن اس کا ان کے ’جائز دعوؤں‘ پر ’کوئی اثر نہیں ہوگا۔

دوسری جانب امریکا اور روس نے اپنے مشترکہ بیان میں بین الافغان بات چیت کے آغاز کے لیے اپنی تیاری کا اظہار کیا تا کہ امن معاہدے کی حمایت کے طور پر طالبان رہنماؤں پر ’نافذ پابندیوں پر نظر ثانی‘ کی جائے۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ طالبان کی جانب سے پرتشدد کارروائیوں میں مزید کمی جبکہ دوسری صورت میں ’افغانستان یا دیگر ممالک کے امن، سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ بننے والی سرگرمیوں کی حمایت یا ان میں شمولیت اس نظرِ ثانی پر اثر انداز ہوگی‘۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا-طالبان امن معاہدے پر دستخط کے 2 روز بعد ہی افغانستان میں بم دھماکا

اس کے ساتھ دونوں ممالک نے جنگ ختم کرنے، علاقائی سیکیورٹی اور عالمی سالمیت کا کردار ادا کرنے والا جامع اور پائیدار امن معاہدہ لانے کے لیے کابل حکومت، سول سوسائٹی اور طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا وعدہ کیا۔

علاوہ ازیں روس اور امریکا نے طالبان اور دیگر افغان گروپس سے مطالبہ کیا کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں کہ افغانستان کی سرزمین، القاعدہ، داعش یا کسی اور عالمی دہشت گروہ کے عسکریت پسند کسی ملک کو دھمکی دینے یا حملہ کرنے کے لیے استعمال نہ کرسکیں۔

دریں اثنا دونوں ممالک نے تمام افغانوں سے فوری طورپر باہمی تشویش کے امور مثلاً قیدیوں کی رہائی اور جنگ بندی پر فوری بات چیت کا آغاز کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں