سرکاری اشتہارات روکنے کے خلاف ڈان کی درخواست پر پی آئی ڈی کے ڈائریکٹر جنرل طلب

اپ ڈیٹ 11 مارچ 2020
پی آئی ڈی نے عدالت  سے جواب جمع کروانے کے لیے مہلت مانگی — فائل فوٹو: ثوبیہ شاہد
پی آئی ڈی نے عدالت سے جواب جمع کروانے کے لیے مہلت مانگی — فائل فوٹو: ثوبیہ شاہد

سندھ ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کی جانب سے ڈان اخبار کے اشتہارات روکنے کے خلاف دائر درخواست پر پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) کے ڈائریکٹر جنرل کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دے دیا۔

پاکستان ہیرالڈ پبلیکشنز پرائیویٹ لمیٹڈ (پی ایچ پی ایل) کے سی ای او حمید ہارون کی جانب سے ایڈووکیٹ منیر اے ملک کے توسط سے دائر کردہ درخواست میں سیکریٹری وزارت اطلاعات و نشریات کے ذریعے وفاق اور پی آئی ڈی کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر کے ذریعے وزارت اطلاعات کو فریق بنایا گیا تھا جنہیں گزشتہ سماعت میں نوٹس بھی جاری کیا گیا تھا۔

مذکورہ درخواست کی سماعت سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کی جس میں پی آئی ڈی کے اسسٹنٹ ایڈمن افسر آصف جاوید اور انفارمیشن افسر اشفاق احمد پیش ہوئے۔

انہوں نے عدالت سے جواب جمع کروانے کے لیے مہلت مانگی اور درخواست کی نقل بھی طلب کی جو انہیں فراہم کردی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈان نے وفاقی حکومت کی جانب سے اشتہارات روکنے پر عدالت سے رجوع کرلیا

ایڈمن افسر نے مؤقف اختیار کیا کہ وفاقی حکومت کے اشتہارات ڈان اخبار کو دیے جارہے ہیں تاہم منیر اے ملک نے اس بیان کو مسترد کردیا۔

جس پر عدالت نے کہا کہ ’اس بیان پر مزید بات کرنے کے لیے حکومت پاکستان کے پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل کی موجودگی ضروری ہے جو آئندہ سماعت میں ذاتی حیثیت میں پیش ہوں‘۔

خیال رہے کہ پی ایچ پی کی دائر کردہ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ جنوری 2020 سے وفاقی حکومت نے اچانک ڈان کو اشتہارات دینا بند کر دیے اور پبلیکیشن کو اس کی وجہ سے آگاہ نہیں کیا گیا حالانکہ دہائیوں سے ڈان کو اشتہارات دیے جارہے ہیں۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ 'ڈان کو سرکاری اشتہارات دینے پر پابندی کا اقدام بدنیتی پر مبنی ہے، درحقیقت ڈان کو اپنے مختلف ایڈیشنز میں ان آرا اور رپورٹس شائع کرنے پر سزا دی جارہی ہے جو وفاقی حکومت کے اعلیٰ حکام کی آرا اور رپورٹس کے موافق نہیں تھیں'۔

مزید پڑھیں: وفاقی حکومت کے اشتہارات روکنے کےخلاف ڈان کی درخواست پر فریقین کو نوٹس

درخواست گزار نے کہا تھا کہ 'ڈان کے اشتہارات روکنا اور پابندی عائد کرنا اخبار کے آزادی صحافت کے بنیادی حق پر قدغن لگانے کی کوشش ہے'۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ رپورٹرز کو حالیہ بریفنگ کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے ڈان پر نومبر 2018 میں ان کے چین کے پہلے دورے کے دوران 'جعلی خبریں' شائع کرنے کا الزام لگایا حالانکہ الزام کے برعکس ایسا کچھ نہیں ہوا۔

درخواست کے مطابق 'اسی طرح کی خبریں اور تبصرے دیگر اخبارات میں بھی شائع ہوئی، جنہیں سرکاری اشتہارات دیے جارہے ہیں بلکہ حقیقتاً ڈان کے اشتہارات روکنے کی وجہ سے ان کے اشتہارات میں اضافہ ہوا ہے'۔

اس میں مزید کہا گیا تھا کہ ڈان 'میٹروپولیٹن اے' کٹیگری کا اخبار ہے اور سب سے زیادہ شائع ہونے والے اخبارات میں شمار ہوتا ہے، اخبار کی سرکولیشن کے اعداد و شمار حکومت کے آڈٹ بیورو آف سرکولیشن سے بھی تصدیق شدہ ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: سی پی جے کا حکومت سے ڈان، جنگ میڈیا گروپ کے سرکاری اشتہارات جاری کرنے کا مطالبہ

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ 'ڈان اخبار کو اس کی نیوز کوریج، تبصروں اور فیچرز کے معیار اور معروضیت کی وجہ سے بڑے پیمانے پر پڑھا جاتا ہے، اخبار کسی سیاسی جماعت سے منسلک نہیں ہے جو ایک وجہ ہے کہ عوام غیر جانبدارانہ رپورٹنگ اور تجزیوں کے باعث اسے پسند کرتے ہیں'۔

درخواست کے مطابق اخبار کی ادارتی ٹیم آزادانہ طور پر اپنے فرائض انجام دیتی ہے جس کے امور میں انتظامیہ اور مالکان کا کوئی عمل دخل نہیں تاہم اخبار اس کی چھپائی کی لاگت سے کم قیمت میں فروخت کیا جاتا ہے اور اشتہارات کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی کے ذریعے اس کی قیمت فروخت کو 'سبسیڈائزڈ' کیا جاتا ہے۔

درخواست گزار نے کہا تھا کہ 'وفاقی حکومت اشتہارات کا بڑا ذریعہ ہے اور وفاقی حکومت کے ماتحت وزارتیں، ڈویژنز اور اداروں کی جانب سے عوامی سطح کی آگاہی مہم اور نوٹسز جاری کیے جاتے ہیں'۔

درخواست گزار کا مؤقف تھا کہ 'پی آئی ڈی کو چاہیے کہ وہ پرنٹ میڈیا کو سرکاری اشتہارات جاری کرنے میں انصاف سے کام لے اور اپنی من مانی اور تعصب کا مظاہرہ نہ کرے'۔

مزید پڑھیں: پی ایف یو جے کی ڈان گروپ کے سرکاری اشتہارات پر پابندی کی مذمت

درخواست میں کہا گیا تھا کہ 'پرنٹ میڈیا کو اشتہار جاری کرنا اور مختلف اخبارات کے لیے اس کی تقسیم کوئی مہربانی نہیں ہے جو حکومت جس پر بھی اور جس بھی وجہ سے کرے جبکہ حکومت کا یہ اقدام آئین کے بنیادی حقوق کے آرٹیکلز 4، 9، 18، 19 اور 25 کی خلاف ورزی ہے'۔

درخواست گزار کے مطابق سرکاری اشتہارات نہ ملنے سے اخبار کو مجبوراً اس کی قیمت فروخت بڑھانی پڑے گی جس کی وجہ سے اس کی سرکولیشن پر بُری طرح اثر پڑے گا۔

علاوہ ازیں درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ حکومت کا یہ اقدام غیر آئینی قرار دے اور اسے اخبارات کو اسی طرح اشتہارات جاری کرنے کا حکم دے جس طرح دسمبر 2019 اور اس سے قبل جاری کیے جارہے تھے۔


یہ خبر 11 مارچ 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں