کورونا وائرس کے حوالے سے گھبرانا نہیں چاہیے، اقدامات کررہے ہیں، ظفر مرزا

اپ ڈیٹ 16 مارچ 2020
ڈاکٹر ظفر مرزا نے احتیاطی تدابیرکرنے پر زور دیا—فوٹو:ڈان نیوز
ڈاکٹر ظفر مرزا نے احتیاطی تدابیرکرنے پر زور دیا—فوٹو:ڈان نیوز

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کورونا وائرس کے حوالے سے احتیاطی تدابیر کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت مؤثر اقدامات کر رہی ہے اور متحد ہوکر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اسلام آباد میں قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ ‘پاکستان میں کل تک 53 کیسز تھے اور پچھلے 24 گھنٹوں میں 33 کیسز آئے ہیں اوراس وقت مصدقہ کیسز کی تعداد 94 ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘تفتان سے جو زائرین واپس لوٹے ان کو کچھ عرصے وہاں رکھنے کے بعد کوشش کی کہ 14 روز کا قرنطینہ مکمل ہو اور مخصوص اقدامات کرتے ہوئے متعلقہ صوبوں کو بھیجا اور انہوں نے وصول کیا اور صوبوں نے مناسب سمجھا جو حکمت کا فیصلہ تھا کہ ان کو وصول کرنے کے بعد فوری طور پر گھر نہیں بھیجیں گے اور دوبارہ قرنطینہ میں رکھیں گے اور ٹیسٹ بھی کریں گے تاکہ اعتماد ہو کہ متاثرہ افراد نہ ہو’۔

مزید پڑھیں:خیبر پختونخوا میں کورونا کی تصدیق، ملک میں مجموعی تعداد 121 ہوگئی

انہوں نے کہا کہ ‘سندھ میں جو زائرین بھیجے گئے حکومت سندھ نے بہترین اقدامات کیے اور سکھر میں رکھا اور ٹیسٹ کیے جو مثبت آنے لگے اور بتدریج تعداد 94 ہوگئی’۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ ‘ان اعداد و شمار سے ہمیں گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ دوسرے ممالک سے ان کا تقابل کرنا چاہیے کیونکہ وہاں زیادہ تر لوگ صحت یاب ہو رہے ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘چند روز پہلے نیشنل سیکیورٹی کا اجلاس ہوا تھا جس میں قومی رابطہ کمیٹی قائم کی تھی اور ذمہ داری دی تھی کہ سلامتی کمیٹی کے فیصلوں پر عمل درآمد کروائے، اس سلسلے میں فوری عمل درآمد کے فیصلوں پر عمل ہوگیا ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کو وزیراعظم کی سربراہی کرتے ہیں اور وہ صورت حال کو خود جائزہ لیتے ہیں اور آج بھی اجلاس کی صدارت کی ہے جس میں جائزہ لیتے ہیں اور میں پاکستان کے لوگوں کو یقین دہائی کرانا چاہتا ہوں کہ حکومت اس سلسلے میں بہت گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور مناسب اقدامات کیے بھی ہیں اور کر بھی رہی ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان میں اس وقت بڑے شہروں میں 14 لیبارٹریز ایسی ہیں جہاں تشخیصی کٹس حکومت پاکستان کی طرف سے فراہم کی جارہی ہیں جو مکمل طور پر مفت ٹیسٹ کیے جاتے ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘کس کو یہ ٹیسٹ کروانا چاہیے یہ بھی جاننا ضروری ہے کیونکہ لوگ ذرا بیمار ہوتےہیں تو کورونا ٹیسٹ کروانا چاہتے ہیں لیکن اس میں ذمہ داری کی ضرورت ہے، اگر معمول کا نزلے پر کورونا ٹیسٹ کریں گے تو ہمارے پاس کٹس ختم ہوجائیں گی’۔

یہ بھی پڑھیں:'افواہوں پر کان نہ دھریں، سندھ میں کورونا وائرس کے ہر کیس پر فوری آگاہ کریں گے'

ان کا کہنا تھا کہ ‘شک دور کرنے کے لیے یہ ٹیسٹ نہیں ہے بلکہ جو حال ہی میں بیرون ملک سے پاکستان آئے ہیں اور ان کو علامات ہوئی ہیں مستند ڈاکٹر سے رجوع کرکے ٹیسٹ کے بارے میں پوچھیں یا پھر 1166 فون کرکے ٹیسٹ کے حوالے سے معلومات حاصل کریں اور ٹیسٹ کے لیے ٹیم آسکتی ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘دوسرے وہ لوگ ہیں جن کا ٹیسٹ ہوسکتا ہے وہ ہیں جن کے اہل خانہ میں سے کوئی باہر گیا تھا اور آپ کو علامات ظاہر ہورہی ہوں تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے’۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ ‘ہمارے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ بڑے شہروں میں کئی لیبارٹریز میں کورونا وائرس کا ٹیسٹ کرنا شروع کردیا ہے لیکن کچھ مخصوص لیبارٹریز وہ ٹیسٹ کرسکتی ہیں لیکن زیادہ تر کے پاس سہولت نہیں ہے اس لیے احتیاط کی ضرورت ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘نجی لیبارٹریز مہنگے داموں یہ ٹیسٹ کررہی ہیں تو اس سلسلے میں بھی احتیاط کی ضرورت ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘باہر سے آنے والے لوگوں کی اسکریننگ کی مدد کی لیے رینجرز کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور تین ایئرپورٹس میں شامل کردیا گیا ہے جو ہماری ٹیموں کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں’۔

معاون خصوصی نے کہا کہ ‘کوشش کریں گے کہ جو متاثرہ لوگ باہر سے آرہے ہیں ان کو ہسپتال بھیجیں اور اگر علامات نہیں ہیں تو ان کا ایڈریس لے کر ان کی نگرانی کرسکیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘صوبوں کے ساتھ رابطوں میں بہتری ہوئی ہے اور صوبوں میں معلومات کے مراکز ہیں جس کے تحت مستند معلومات دی جائیں گی اور میں اعداد وشمار دوں گا جو قومی سطح پر ہوں گے’۔

کورونا وائرس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جب تک عوام کا تعاون نہیں ہوگا حکومت کے اقدامات سے اس وائرس کو ختم نہیں کیا جاسکتا اس لیے ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور احتیاطی تدابیر کی جائیں جس کے لیے ایک دوسرے سے محفوظ فاصلے رکھیں، دفاتر اور دیگر اداروں میں جہاں لوگ مل کر بیٹھتے ہیں وہاں فاصلہ رکھ کر بیٹھیں تو زبردست نتائج ہوں گے اور بہت فرق پڑے گا۔

مزید پڑھیں:کورونا وائرس: سندھ میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کی نئی تاریخوں کا اعلان

ان کا کہنا تھا کہ جامعات، کالج اور اسکولوں کو بچوں کے لیے بند کردیے گئے ہیں لیکن بعض اداروں نے کہا ہے کہ اسٹاف آئے گا تو یہ فیصلے کے حوالے سے درست نہیں ہے اس لیے انتظامیہ اسٹاف کو بھی نہیں بلائے۔

انہوں نے کہا کہ ‘رابطہ کمیٹی کو میڈیا مہم چلانے کی ذمہ داری دی گئی تھی اسی سلسلے میں اشتہارات بھی دیے گئے ہیں اور آنے والے دنوں میں مختلف قسم کے ذرائع استعمال کریں گے اور اس حوالے سے میڈیا کا کردار مؤثر ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘عمارات اور دیگر عوامی مقامات پر فیومی گیشن کر رہے ہیں، نیشنل ڈیزاسٹر اتھارٹی کام کرتی ہے اور ہم نے ان سے تعاون کیا ہے اور اسپرے کے حوالے سے تفصیلی منصوبہ بنایا گیا ہے’۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ ‘لوگ بلا ضرورت ماسک پہن رہے ہیں اس لیے ہم اس حوالے سے اخبار میں اشتہار بھی دیں گے کیونکہ جس کو علامات نہ ہو اور متاثرین کی دیکھ بھال نہیں کر رہا ہو اس کے علاوہ کسی کو ماسک پہننے کی ضرورت نہیں ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘نزلہ زکام ہورہا ہو اور چھینکیں آرہی ہوں تو ماسک پہننا چاہیے جبکہ ڈاکٹروں کو ماسک پہننا نہایت ضروری ہے کیونکہ وہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر علاج کر رہے ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘آج کے اجلاس میں طے پایا ہے کہ وزیراعظم قوم سے جلد خطاب کریں گے اور اس حوالے سے اعتماد میں لیں گے کہ حکومت کیا اقدامات کررہی ہے آگاہ کریں گے’۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ مسائل ہیں لیکن ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے اور ذمہ داری کے ساتھ احتیاطی تدابیر کرنے سے ہم پاکستان میں بڑی حد تک محفوظ رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہمارے 6 ہزار زائرین ایران میں تھے جن کو ایران سے واپس لانا ضروری تھا کیونکہ وہاں زیادہ مسئلہ تھا اور ہم نے بڑی محنت سے قرنطینہ بنایا اور تسلیم ہے کہ وہ آئیدیل جگہ نہیں تھی جو ممکن تھا کیا اور بڑے اچھے نظام کے تحت نکالا گیا’۔

وزیراعلیٰ سندھ نے ان کو دوبارہ قرنطینہ کرنے اور ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کیا جو بہتر اقدام ہے اور وہ بہتر اقدام کررہے ہیں اور دیگر صوبوں میں بھی یہی ہوگا اور متحد ہوکر کام کریں گے تو پاکستان محفوظ ہوگا۔

خیال رہے کہ سندھ میں کورونا وائرس کے مزید کیسز کی تصدیق ہوگئی جبکہ خیبر پختونخوا میں بھی 15 کیسز سامنے آگئے ہیں جس کے بعد ملک میں مجموعی تعداد 136 تک پہنچ گئی ہے۔

پاکستان میں کورونا وائرس

پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری 2020 کو کراچی میں سامنے آیا۔

26 فروری کو ہی معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے ملک میں مجموعی طور پر 2 کیسز کی تصدیق کی۔

29 فروری کو ڈاکٹر ظفر مرزا نے ملک میں مزید 2 کیسز کی تصدیق کی، جس سے اس وقت تعداد 4 ہوگئی تھی، 3 مارچ کو معاون خصوصی نے کورونا کے پانچویں کیس کی تصدیق کی۔

6 مارچ کو کراچی میں کورونا وائرس کا ایک اور کیس سامنے آیا، جس سے تعداد 6 ہوئی۔

8 مارچ کو شہر قائد میں ہی ایک اور کورونا وائرس کا کیس سامنے آیا۔

9 مارچ کو ملک میں ایک ہی وقت میں سب سے زیادہ کورونا وائرس کے 9 کیسز کی تصدیق کی گئی تھی۔

10 مارچ کو ملک میں کورونا وائرس کے 3 کیسز سامنے آئے تھے جن میں سے دو کا تعلق صوبہ سندھ اور ایک کا بلوچستان سے تھا، جس کے بعد کیسز کی مجموعی تعداد 19 جبکہ سندھ میں تعداد 15 ہوگئی تھی۔

بعد ازاں سندھ حکومت کی جانب سے یہ تصحیح کی گئی تھی 'غلط فہمی' کے باعث ایک مریض کا 2 مرتبہ اندراج ہونے کے باعث غلطی سے تعداد 15 بتائی گئی تھی تاہم اصل تعداد 14 ہے، اس تصحیح کے بعد ملک میں کورونا کیسز کی تعداد 10 مارچ تک 18 ریکارڈ کی گئی۔

11 مارچ کو اسکردو میں ایک 14 سالہ لڑکے میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی تھی، جس کے بعد مجموعی تعداد 19 تک پہنچی تھی۔

12 مارچ کو گلگت بلتستان کے ضلع اسکردو میں ہی ایک اور کیس سامنے آیا تھا جس کے بعد ملک میں کورونا کے کیسز کی تعداد 20 تک جاپہنچی تھی۔

13 مارچ کو اسلام آباد سے کراچی آنے والے 52 سالہ شخص میں کورونا کی تصدیق کے بعد تعداد 21 ہوئی تھی، بعدازاں اسی روز ڈاکٹر ظفر مرزا نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران تفتان میں مزید 7 کیسز سامنے آنے کی تصدیق کی تھی اور کہا تھا کہ پاکستان میں مجموعی طور پر کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد 28 ہوگئی۔

14 مارچ کو سندھ و بلوچستان میں 2، 2 نئے کیسز کے علاوہ اسلام آباد میں کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آیا جس کے بعد ملک میں مجموعی کیسز کی تعداد 33 ہوگئی۔

15 مارچ کو اسلام آباد اور لاہور میں ایک ایک، کراچی میں 5، سکھر میں 13 کیسز سامنے آئے جس کے بعد ملک بھر میں مجموعی تعداد کیسز کی تعداد 53 ہوگئی تھی۔

کورونا وائرس ہے کیا؟

کورونا وائرس کو جراثیموں کی ایک نسل Coronaviridae کا حصہ قرار دیا جاتا ہے اور مائیکرو اسکوپ میں یہ نوکدار رنگز جیسا نظر آتا ہے، اور نوکدار ہونے کی وجہ سے ہی اسے کورونا کا نام دیا گیا ہے جو اس کے وائرل انویلپ کے ارگرد ایک ہالہ سے بنادیتے ہیں۔

کورونا وائرسز میں آر این اے کی ایک لڑی ہوتی ہے اور وہ اس وقت تک اپنی تعداد نہیں بڑھاسکتے جب تک زندہ خلیات میں داخل ہوکر اس کے افعال پر کنٹرول حاصل نہیں کرلیتے، اس کے نوکدار حصے ہی خلیات میں داخل ہونے میں مدد فرہم کرتے ہیں بالکل ایسے جیسے کسی دھماکا خیز مواد سے دروازے کو اڑا کر اندر جانے کا راستہ بنایا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس اب تک دنیا کو کتنا متاثر کرچکا ہے؟ جانیے

ایک بار داخل ہونے کے بعد یہ خلیے کو ایک وائرس فیکٹری میں تبدیل کردیتے ہیں اور مالیکیولر زنجیر کو مزید وائرسز بنانے کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں اور پھر انہیں دیگر مقامات پر منتقل کرنے لگتے ہیں، یعنی یہ وائرس دیگر خلیات کو متاثر کرتا ہے اور یہی سلسلہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔

عموماً اس طرح کے وائرسز جانوروں میں پائے جاتے ہیں، جن میں مویشی، پالتو جانور، جنگلی حیات جیسے چمگادڑ میں دریافت ہوا ہے اور جب یہ انسانوں میں منتقل ہوتا ہے تو بخار، سانس کے نظام کے امراض اور پھیپھڑوں میں ورم کا باعث بنتا ہے۔

ایسے افراد جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے یعنی بزرگ یا ایچ آئی وی/ایڈز کے مریض وغیرہ، ان میں یہ وائرسز نظام تنفس کے سنگین امراض کا باعث بنتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں