اسلام آباد: سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ وہ صرف اس صورت میں حکومتی منصوبوں میں مداخلت کرتی ہے کہ جب وہ شفافیت کی قانونی آزمائش پر پورا نہ اتریں، مفادات کا تنازع ہو یا آڈیٹرز کی جانب سے ناکام اسکروٹنی کی جائے، وگرنہ اس قسم کے منصوبے کی نگرانی عدالت کا کام نہیں۔

مذکورہ ریمارکس چیف سیکریٹری کے توسط سے حکومت خیبرپختونخوا، پشاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے)، مقامی حکومت اور دیہی ترقی کے سیکریٹریز اور ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ کی دائر درخواست کی سماعت میں دیے گئے۔

درخواست میں پشاور ہائی کورٹ کے 14 نومبر 2019 کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی جس میں ہائی کورٹ نے متنازع پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے (بی آر ٹی) کا معاملہ تحقیقات کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو ارسال کردیا تھا اور اس سلسلے میں 35 سوالات بھی تشکیل دیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کو پشاور بس منصوبے کی تحقیقات سے روک دیا

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے والے درخواست گزار عدنان آفریدی کو وکیل کے ذریعے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف صوبائی حکومت کے جواب پر ایک مکمل جواب جمع کروانے کی ہدایت کی۔

بعدازاں عدالت عظمیٰ نے اس کیس کی سماعت ایک ماہ تک کے لیے ملتوی کردی اس وقت تک پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے ایف آئی اے کو بی آر ٹی کی تحقیقات کے احکامات پر حکمِ امتناع برقرار رہے گا۔

تاہم منصوبہ تعمیر کرنے والوں نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کروائی کہ بی آر ٹی رواں برس جولائی کے اختتام تک مکمل ہوجائے گا اور یہ قیاس آرائی کہ منصوبے کی لاگت 49 ارب روپے سے بڑھ کر ایک کھرب روپے تک پہنچ گئی ہے صرف افواہ ہے اور منصوبہ 69 ارب روپے کی لاگت میں مکمل ہوجائے گا۔

مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا حکومت کا بی آر ٹی کی تحقیقات کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کا فیصلہ

ان کا کہنا تھا کہ منصوبے کی ابتدائی لاگت میں 17 ارب روپے کا اضافہ اس لیے ہوا کیوں کہ اس میں 2 کلومیٹر اضافی شامل کیے گئے ہیں اور منصوبے کا 85 فیصد فنڈ ایشیائی ترقیاتی بینک دے رہا ہے جبکہ بقیہ صوبائی حکومت کا ذمہ ہے۔

اس سلسلے میں پی ڈی اے کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اگر ہر فرد کو اس کی پرائیویسی متاثر ہونے پر حکومت کو معاوضے کی ادائیگی کا حکم دنیا شروع کردیا تو عدالتیں لوگوں سے بھر جائیں گی۔

یاد رہے کہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ ٹاؤن کی منصوبہ بندی کا تصور یونانی تھا کیوں کہ پشاور کا زیادہ تر ٹریفک واحد سڑک خیبر روڈ پر ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے نے بی آر ٹی پشاور میں بے قاعدگیوں کی تحقیقات شروع کردیں

عدالت نے کہا تھا کہ صرف اس وجہ سے خیبر روڈ اور منسلک سڑکیں تنگ ہوگئیں ہیں لیکن ہول سیل مارکیٹ کو شہر سے باہر منتقل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اس کی جگہ 1980 میں شہر کے رنگ روڈ کا تصور سامنے آگیا جس سے مقررہ طریقہ کار ہی دم توڑ گیا۔

ہائی کورٹ نے منصوبے کا پی سی-1 غیر فعال ہونے پر بھی افسوس کا اظہار کیا جو تفصیلی ڈیزائن کی تکمیل کے بغیر پی ڈی ڈبلیو پی اور سی ڈی ڈبلیو پٌی نے اپریل/مئی 2017 میں 49 ارب 50 کروڑ کی لاگت پر منظور کیا تھا جسے نظرِ ثانی کے بعد 23 مئی 2018 کو 66 ارب 40 کروڑ روپے کردیا گیا تھا۔


یہ خبر 18 مارچ 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں