چین نے 3 امریکی اداروں کے صحافیوں پر پابندی لگادی

18 مارچ 2020
امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے چین کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا— فوٹو: اے پی
امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے چین کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا— فوٹو: اے پی

کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور آزادی صحافت پر امریکا اور چین کی جنگ شدت اختیار کر گئی ہے اور امریکا میں 3 چینی اداروں پر پابندیوں کے بعد بدھ کو چین نے بھی 3 امریکی اداروں کے صحافیوں کو اپنے ملک میں کام کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے۔

یہ اقدام ایک ایسے موقع پر اٹھایا گیا ہے جب گزشتہ ماہ اخبار کے کالم میں چین پر کڑی تنقید کے بعد چین نے وال اسٹریٹ جرنل کے 2 امریکی اور ایک آسٹریلین صحافی کو بے دخل کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: چین کا سرکاری دفاتر میں امریکی ساختہ ٹیکنالوجی پر پابندی کا فیصلہ

چین نے اس کالم کو نسل پرستانہ قرار دیا تھا اور اخبار کی جانب سے معافی مانگنے سے انکار کے بعد تینوں صحافیوں کے ویزے ختم کر دیے گئے تھے۔

یاد رہے کہ ادارے کے ایک رپورٹر کو اس وقت چین سے جانا پڑا تھا جب ان کے ویزے کی میعاد بڑھانے سے انکار کردیا گیا تھا۔

پھر رواں ماہ مارچ کے اوائل میں ہی امریکا نے اپنے ملک میں چین کے 4 ریاستی میڈیا اداروں میں کام کرنے والے افراد کی تعداد 160 سے کم کرتے ہوئے صرف 100 کو کام کرنے کی اجازت دی تھی۔

اسی اقدام کے ردعمل کے طور پر بدھ کو بیجنگ نے نیویارک ٹائمز، وال اسٹریٹ جرنل اور واشنگٹن پوسٹ کے صحافیوں کو امریکی سرزمین پر کام کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: نیا کورونا وائرس فضا میں گھنٹوں اور سطح پر کئی دنوں تک رہ سکتا ہے، تحقیق

ان اداروں کے افراد کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ آئندہ 10دن کے اندر اپنے پریس کارڈ واپس کریں تاہم یہ بات واضح نہیں کہ اس حکم نامے کے نتیجے میں کتنے افراد متاثر ہوں گے۔

اس کے ساتھ حکم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان تینوں اخبارات کی چین کی شاخوں، وائس آف امریکا اور ٹائم میگزین کو چین میں اپنے عملے، مالی معاملات، آپریشن اور ریئل اسٹیٹ کی تمام تر معلومات تحریری طور پر فراہم کرنا ہوں گی۔

چین نے کہا کہ وہ امریکا کی جانب سے چین کے صحافیوں پر عائد پابندیوں کے جواب میں یہ پابندیاں لگا رہے ہیں۔

چین کے فیصلے میں اہم بات یہ ہے کہ اس نے اپنی نیم خودمختار ریاستوں ہانگ کانگ اور مکاؤ میں بھی امریکی صحافیوں کو کام سے روک دیا ہے حالانکہ ماضی میں چین میں پابندیوں کا سامنا کرنے والے صحافیوں کو ہانگ کانگ میں کام کی اجازت ہوتی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس نے امریکا کی تمام 50 ریاستوں کو لپیٹ میں لے لیا

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے ایشیا پروگرام کے کوآرڈینیٹر اسٹیون بٹلر نے کہا کہ اس بات کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ چین اس کا فیصلہ کرے کہ ہانگ کانگ میں کون صحافی کام کرے یا کون نہیں۔

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد چین اور امریکا کے درمیان لفظی جنگ شروع ہو چکی ہے جہاں چین سے جنم لینے والے اس وائرس سے اب تک 7ہزار 400افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائک پومپیو نے بدھ کو اپنے بیان میں کہا کہ امریکا کا یہ اقدام کورونا وارئس کے اس حد تک چیلنجنگ اوات میں دنیا اور چین کے عوام کو معلوما سے محروم رکھنے کے مترادف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں چین کی جانب سے آزادانہ صحافت کی دنیا کی کاوشوں پر پابندی کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتا ہوں، یہ بدقسمتی ہے لیکن مجھے امید ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر غور کریں گے۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب: مساجد میں نمازوں کی ادائیگی پر پابندی عائد

واشنگٹن پوسٹ کے ایگزیکٹؤ ایڈیٹر مارٹن بیرن نے اپنے بیان میں کہاکہ ہم امریکی رپورٹرز کو نکالنے کے چین کے فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہیں، چینی حکومت کا فیصلہ اس لیے بھی افسوسناک ہے کہ یہ ایک عالمی بحران کے دوران سامنے آیا ۔

وال اسٹریٹ جرنل اور نیویارک ٹائمز کے صحافیوں کی جانب سے بھی اس فیصلے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں