فائل السٹریشن --.

آج سے دس بارہ سال پہلے تک وہ حضرات جو ٹی وی کو شیطان قرار دے کر توڑنے کے فتوے جاری کر رہے ہوتے تھے ان میں کئی ایک آج اسی ٹی وی اسکرین پر براجمان نظر آتے ہیں اور اسی ٹی وی کو تبلیغ دین کا مظہر قرار دے رہے ہوتے ہیں۔

لوگوں کو یاد ہو یا نہ یاد ہو لیکن ہمیں بخوبی یاد ہے کہ ایک سیاسی و سماجی تنظیم نے حسن اسکوائر پر ایک مظاہرے کے دوران ہزاروں لوگوں کے سامنے باقاعدہ ٹی وی توڑا تھا (گو کہ وہ ایک ٹی وی ریپیئرنگ شاپ سے حاصل کیا ہوا ناکارہ ٹی وی تھا، پر تھا تو ٹی وی)۔

توڑنے والوں نے شاید یہ سمجھا کہ اب یہ شیطان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ابدی نیند سو گیا ہے لیکن وہ تو ایسا جاگا کہ ایک چینل کے بجائے سینکڑوں چینلز پر نظر آنے لگا ہے۔

اب ان حضرات سے کوئی پوچھے کہ حضور اعلیٰ، جس ٹی وی کو آپ نے گھر میں رکھنا حرام قرا دے دیا تھا، اب اسی کے چلانے  والوں سے یہ شکایت کیوں کہ انہوں نے آپ کے سیاسی جلسے کی کوریج ٹھیک طرح سے نہیں کی اور سارا وقت الطاف بھائی کی تقریر براہ راست نشر کرتے رہے۔

ٹی وی توڑے جانے کے کئی عوامل ہیں جس طرح لوگ غصے میں آکر اپنی بیویوں کو طلاق دے بیٹھتے ہیں اسی طرح کوئی غیر اخلاقی پروگرام دیکھہ کر بھی ٹی وی توڑا جاسکتا ہے۔ یہ عمل اکثر پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی شکست کے موقع پر دیکھا گیا ہے۔ شکست ہو وہ بھی انڈیا سے، پھر تو ٹی وی کیا گھر کے باہر کھڑی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی بھی خیر نہیں ہوتی۔

اب جب کہ ٹی وی کو طالبان کی طرح حقیقت سمجھہ کر قبول کرلیا گیا ہے اور ہر طرح کے رنگ برنگے ٹی وی چینلز کی بھرمار ہوگئی ہے حتیٰ کہ مختلف مکاتب فکر کی نمائندگی کرنے والے چینلز بھی وجود میں آگئے ہیں لہٰذا طالبان کو بھی چاہیئے کہ وہ ایف ایم ریڈیو کی طرح اپنا ایک ٹی وی چینل لانچ بھی کر دیں۔ اس طرح ریٹنگ آنے پر انہیں اپنی مقبولیت کا اندازہ بھی ہوجائے گا۔

اور اگر طالبان زیادہ مقبول ہوگئے اور ریٹنگز شاندار آنے لگیں تو پھر بہت سارے بڑے چینلز اپنی رمضان نشریات میں۔۔۔۔۔ خیر چھوڑئیے، میرے اس جملے پر کئی حضرات کی نیندیں حرام ہوجائیں گی۔

وہ حضرات جو ٹی وی کو شیطان قرار دیتے تھے اب اپنے بیان پر نادم ہیں اور ٹی وی کے لاتعداد فوائد بیان کرتے نہیں تھکتے۔ ہم نے ٹی وی کو واقعی شیطان مان لیا ہے، جی ہاں شیطان جو آپ کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ ایک بار جو آدمی ٹی وی کے سامنے بیٹھہ جائے تو یہ خبیث مشکل ہی سے اس کی جان چھوڑتا ہے۔ اب ایک کے بعد ایک چینل بدلے جاتے ہیں اور کہیں نہ کہیں ایسی کوئی فلم، کوئی میچ، کوئی ڈرامہ، کوئی بریکنگ نیوز چل رہی ہوتی ہےجو آپ کو جکڑ ہی لیتی ہے۔

رمضان میں شیطان کو قید کردیا جاتا ہے لیکن ٹی وی آزاد ہوتا ہے۔ روزے داروں کی بھوک و پیاس کا احساس کرتے ہوئے ٹی وی مالکان نے اپنی رمضان نشریات جو پہلے صرف ایک دو گھنٹے کی ہوتی تھیں اب پورے دن پر محیط کردی ہیں۔ اب آپ مزید کھانے کے پروگرام، کوئز، مذہبی مسائل پر گفتگو وغیرہ دیکھ کر بآسانی اپنا روزہ بہلا سکتے ہیں!

میرے پچھلے بلاگ (رمضان، متیرہ اور عامر لیاقت) پر کچھ حضرات نے اعتراض کیا ہے کہ میں نے اوروں کے ساتھ ایک سابق گلوکار کو بھی، جو اب باریش دیندار شخصیت ہو چکے ہیں، تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ وہ تو دین کی خدمت کر رہے ہیں۔

میں آپ سے صرف یہ درخواست کرتا ہوں کہ آپ ان تمام حضرات سے جو ٹی وی پر آکر یہ دینی فریضہ انجام دے رہے ہیں، یہ ضرور پوچھیں کہ انہیں اس کا معاوضہ کتنے لاکھہ یا کروڑ ملے گا جبکہ دین کی کوئی 'اجرت' نہیں ہوتی۔


Khurram-abbas-blogs-80 خرم عباس ایک ڈرامہ نگار ہیں اور کراچی کی دنیا ان کا خاص موضوع ہے

ضرور پڑھیں

تبصرے (6) بند ہیں

Tahir Jul 27, 2013 07:01pm
its very much true
IR Jul 27, 2013 10:31pm
Khurram Abbas Sb. I am really, really agreed with your point of view. What the hell is going on TV. Where one should go. An-all nastiness is OK just for rating. some are giving babies without having sense of the legalities of adoption. The world media has flashed such unethical acts. The stupid PEMRA is doing nothing. They are just channels not a force, this is not at all journalism. All this mess should be end.
Abdul Haseeb Jul 28, 2013 02:23am
If you had come out of your little world and actually gone somewhere to do some actual research before writing an article, you would be surprised to see that the people who opposed TV, still do. They are leading a happy life without it and I don't think they're going to change their views anytime soon. Dawn should publish articles which are written after some research and do not suffer from the personal biases of the writers. What a waste of time.
Hasan Syed Jul 29, 2013 06:40pm
@:Andul Haseeb, "They are leading a happy life"....And who might those people be, may be in Tora Bora and making it impossible for others to live.... I find it hard understand your comment. I would be curious to see which "Big world" are you from.... either you did not understand the article or you are so out of touch that you can’t relate to it....
Usama Bin Maalik Jul 30, 2013 10:21am
محترم کالم نگار! آپکی اطلاع کے لیے عرض ھے کہ موصوف کے گھر میں ٹی وی نہیں ہے. Aik kalam nigaar ka kalam hr lihaz se perfect hona chahye.mgr aapka kalam haqiqat k bajaye juggat bazi pr zyada mubni hai...Mre khayal me abi b tv k bagher bht achi life guzari ja sakti hai..It's not an essential item...Thanx
Abdulwahid Aug 04, 2013 05:11pm
Aus glukaar ko to pese miltay hi hon ge lekin aap j se likhari ko b to kuch na kuch milta hi hoga ya phir ho skta hai ye sb kuch paaaaaaaaa lene ki khawahish ho