پی ایم ڈی سی کیس: 'حکومت عدالت کی توہین کر رہی ہے، وزیراعظم کو شرم آنی چاہیے'

اپ ڈیٹ 30 مارچ 2020
اسلام آباد ہائیکورٹ کے سنگل رکنی بینچ نے سماعت کی—فائل فوٹو: ٹوئٹر
اسلام آباد ہائیکورٹ کے سنگل رکنی بینچ نے سماعت کی—فائل فوٹو: ٹوئٹر

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کی عدم بحالی پر دائر توہین عدالت کی درخواست پر وفاقی حکومت پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ حکومت عدالت کی توہین کر رہی ہے، وفاقی حکومت، وزیراعظم اور وزیر صحت کو شرم آنی چاہیے۔

وفاقی دارالحکومت کی عدالت عالیہ میں جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل سنگل رکنی بینچ نے پی ایم ڈی سی کو عدالتی حکم کے باوجود بحال نہ کرنے کے خلاف توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کی، اس دوران عدالت میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر و دیگر حکام پیش ہوئے۔

دوران سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے سیکریٹری ہیلتھ کی عدم پیشی پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دیے کہ میں سیکریٹری ہیلتھ کو 6 ماہ کے لیے جیل بھیجنے کا حکم دیتا ہوں، ایس ایچ او جائیں اور سیکریٹری ہیلتھ کو گرفتار کر کے جیل بھیجیں، سیکریٹری سے کہیں کورونا ٹیسٹ کروا کے آئیں میں آج ہی جیل بھیجوں گا۔

مزید پڑھیں: پی ایم ڈی سی بحال، پاکستان میڈیکل کمیشن تحلیل کرنے کا حکم

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ حکومت عدالت کی توہین کر رہی ہے وزیروں اور اعلیٰ حکام کو جیل بھیج دوں گا۔

ساتھ ہی یہ ریمارکس بھی دیے کہ ایمرجنسی میں وفاقی حکومت جو کام کر رہی ہے وہ تباہ کن ہیں، وفاقی حکومت، وزیراعظم اور وزیر صحت کو شرم آنی چاہیے۔

سماعت کے دوران انہوں نے ریمارکس دیے کہ ایک گھنٹے میں پی ایم ڈی سی کا تالہ توڑ کر عدالت کو آگاہ کریں، میں اپنے فیصلے کو اس سطح پر لے جاؤں گا کہ کوئی برداشت نہیں کر سکے گا۔

اس موقع پر عدالت کی جانب سے یہ پوچھا گیا کہ کیا پی ایم ڈی سی کے ملازمین کو تنخواہ مل رہی ہے، جس پر کونسل کے وکیل نے بتایا کہ نہیں 5 ماہ سے تنخواہ نہیں مل رہی۔

جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ کوئی ایسی بات نہیں ہے، جیلیں انہی کے لیے بنی ہیں، وفاقی حکومت عدالت کے منہ پر تھپڑ مار رہی ہے، وزارت والوں کو سمجھائیں یہ جیل چلے جائیں گے تو اُن جیسے ہو جائیں گے جو جیلوں میں بند ہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ابھی جائیں اور پی ایم ڈی سی کے تالے توڑ کر رجسٹرار کو ان کے دفتر میں بٹھا کر آئیں۔

اس موقع پر اسلام آبا ہائیکورٹ نے وزارت صحت کو نئے ڈاکٹرز کی رجسٹریشن سے بھی روک دیا اور رجسٹریشن کے لیے قائم ڈیسک بھی بند کرنے کا حکم دیا۔

عدالت نے کہا کہ پی ایم ڈی سی کو اختیار ہے کہ وہ نئے ڈاکٹرز کی رجسٹریشن کی درخواستیں وصول کرے۔

بعد ازاں ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے بیان دیا اور وفاقی حکومت کی جانب سے پی ایم ڈی سی کو فوری طور پر ڈی سیل کرنے کی یقین دہانی کروائی۔

ساتھ ہی وفاقی حکومت کی جانب سے رجسٹرار پی ایم ڈی سی کو اپنے دفتر میں بیٹھنے کی اجازت دے دی، جس پر عدالت نے رجسٹرار پی ایم ڈی سی کو اپنے آفس میں کم سے کم اسٹاف کے ساتھ بیٹھنے کی ہدایت کی۔

عدالت میں سماعت کے دوران طارق کھوکھر نے بتایا کہ حکومت نے پی ایم ڈی سی کو ڈی سیل کرکے بحال ہونے والے رجسٹرار کو بیٹھنے کی اجازت دی ہے کیونکہ موجودہ حالات میں تمام ملازمین کو بیٹھنے کی اجازت نہیں دے سکتے، اس پر رجسٹرار بریگیڈیئر (ر) حفیظ کا کہنا تھا کہ مجھے کہا گیا کہ آپ اسٹاف کے بغیر اکیلے دفتر میں بیٹھ سکتے ہیں۔

رجسٹرار کا کہنا تھا کہ میں نے بتایا تھا کہ میں نے اپنے اسٹاف کے ساتھ آفس میں بیٹھنا ہے جبکہ پی ایم ڈی سی پر پولیس تعینات ہے، اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ کورونا وائرس کی صورتحال میں وفاقی حکومت کی پالیسی کو اپنائیں، حکومت نے کورونا وائرس کے پیش نظر باقی اداروں کے ملازمین کو گھر بٹھایا ہوا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ ان حالات میں کتنے ملازمین کے ساتھ کام کرنا ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ نئے ڈاکٹرز کی رجسٹریشن پی ایم ڈی سی کا کام ہے، وزارت صحت کو نئے ڈاکٹرز کی رجسٹریشن کا اختیار نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی، سیکریٹری صحت کو توہینِ عدالت کا نوٹس

یاد رہے کہ 20 اکتوبر کو صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آرڈیننس نافذ کرتے ہوئے پی ایم ڈی سی کو تحلیل کردیا تھا جس کے نتیجے میں پی ایم سی کے نام سے نئے ادارے کے قیام کی راہ ہموار ہوگئی تھی۔

بعدازاں 28 اکتوبر کو پی ایم ڈی سی کے رجسٹرار بریگیڈیئر (ر) ڈاکٹر حفیظ الدین اور 31 ملازمین نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کونسل کو تحلیل کرنے کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے 11 فروری 2020 کو پی ایم ڈی سی اور اس کے تمام ملازمین کو بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔

تاہم عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے ملازمین نے توہینِ عدالت کی درخواست دائر کی تھی، ملازمین نے مؤقف اپنایا تھا کہ پی ایم ڈی سی کی عمارت کو سیل کردیا گیا ہے اور ملازمین کو داخل نہیں ہونے دیا جارہا۔

ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر نے عدالت کو بتایا کہ وزارت صحت نے عمارت سیل کرنے کی درخواست کی تھی لیکن انتظامیہ نے عمارت سیل کرنے سے انکار کردیا تھا جس پر وزارت صحت نے پی ایم ڈی سی کی عمارت کو خود تالے لگائے۔

تبصرے (0) بند ہیں