پاکستانی نژاد برطانوی نرس برطانیہ میں نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے ہلاک ہونے والی پہلی نرس بن گئی ہیں۔

36 سالہ اریمہ نسرین 15 سال تک ایک ہسپتال میں کلینر کے طور پر کام کرتی رہی تھیں، مگر پھر انہوں نے نرس بننے کے خواب کو تعبیر دینے کے لیے نرسنگ کی تعلیم حاصل کی۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق 3 بچوں کی ماں اریمہ نسرین کو ان کے دوست ایک مثبت، روحانی، پرمزاح اور کھلے دل کی مالک شخصیت قرار دیتے تھے۔

اریمہ نسرین کسی اور بیماری کا شکار نہیں تھیں اور جمعے کی صبح والسل مینور ہسپتال کے آئی سی یو میں وہ کووڈ 19 کے خلاف جنگ ہار گئیں۔

اس ہسپتال میں وہ برسوں سے کام کررہی تھیں اور 2 ہفتے قبل مریضوں کی نگہداشت کے دوران وہ کورونا وائرس میں مبتلا ہوئیں تھیں۔

ان کی دوست شبینہ کوثر نے بتایا 'اریمہ بہت زبردست انسان اور ہر ایک کا استقبال مسکراہٹ کے ساتھ کرتی تھی، وہ ایسی شخصیت تھی جو کسی کے لیے کچھ بھی کرسکتی تھی'۔

انہوں نے مزید بتایا 'وہ بہت کچھ کرنا چاہتی تھی مگر اللہ نے اسے اپنے پاس بلالیا، ہمارے دعائیں اس کے خاندان، شوہر، بچوں اور والدین کے ساتھ ہیں، مجھے لگتا ہے کہ میرا سب کچھ کھو گیا ہے'۔

اریمہ نسرین کے ساتھ اسکول میں پڑھنے والی نادیہ شبیر نے کہا 'جب آپ اپ سیٹ ہوتے تھے تو اسے فون کرتے تھے اور وہ آپ کو حوصلہ دیتی تھھی، وہ ہمیشہ کہتی تھی، نماز پڑھو اور اللہ کی جانب رجوع کرو'۔

انہوں نے مزید کہا 'اس کے بارے میں سب کچھ مثبت تھا، کچھ بھی منفی نہیں تھا، وہ ایسی شخصیت تھی، جو آپ کے ساتھ بیٹھ جاتی، تو چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دیتی، اس کے پاس جو کچھ بھی ہوتا وہ آپ کو دے دیتی، وہ فراخ دل تھی اور یقیناً ایک فرشتہ تھی'۔

انہوں نے اپنی زندگی کا خواب 2019 میں اس وقت پورا کیا جب انہوں نے نرسنگ میں گریجویٹ کیا۔

نادیہ شبیر کے مطابق 'وہ اپنے لیے کچھ کرنا چاہتی تھی اور اس نے ایسا کیا بھی، اس نے گریجویشن مکمل کی اور اسی وارڈ میں اسٹاف نرس بن گئی جہاں وہ 15 سال سے زائد عرصے تک کلینر کا کام کرتی رہی تھی'۔

اریمہ نسرین اپنی زندگی کی کہانی دوسروں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے بھی بیان کرتی تھیں تاکہ وہ اپنے خوابوں کو تعیبر دے سکیں۔

گزشتہ سال اپریل میں ایک ٹوئٹ میں انہوں نے گریجویشن کی خوشی بیان کرتے ہوئے لکھا 'میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ ایسا حیرت انگیز دن دیکھ سکوں گی، والسل مینور ہسپتال کا مجھ پر یقین کرنے پر شکریہ، خواب سچے ہوسکتے ہیں'۔

نادیہ کا کہنا تھا 'اریمہ بالکل ٹھیک تھی، اسے کسی قسم کا طبی مسئلہ نہیں تھا،، ایسا کسی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے'۔

برطانیہ میں اب تک 36 سو سے زائد افراد کورونا وائرس کے نتیجے میں ہلاک ہوچکے ہیں جن میں متعدد افراد ایسے ہیں جن کو کسی قسم کی بیماری کا سامنا نہیں تھا، جیسے ایک 13 سالہ بچہ اسمعیل محمد عبالوہاب، جو برطانیہ میں اس مرض سے ہلاک ہونے والا کم عمر ترین مریض ہے۔

برٹش اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر سلمان وقار کا کہنا تھا ' اریمہ نسرین کی ہلاکت کا واقعہ بتاتا ہے کہ کووڈ 19 کسی کو بھی متاثر کرسکتا ہے، اور ہمیں اس وبا کو سنجیدگی سے لے کر اپنی جانب سے ہرممکن کوشش کرنی چاہیے، سماجی دوری وبا کو کنٹرول کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے، انفرادی سطح پر خاندانوں کو علامات نظر آنے پر خود کو آئسولیٹ کرکے احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیے، گھر پر رہ کر زندگیاں بچائیں اور این ایچ ایس کو محفوظ رکھیں'۔

اریمہ نسرین کی ہلاکت اس وقت ہوئی جب چند گھنٹے پہلے 79 سالہ معروف مصری نژاد برطانوی ڈاکٹر محمد سمیع اس وائرس کے نتیجے میں چل بسے تھے، جس کے بعد برطانیہ میں اس بیماری ہلاک ڈاکٹرون کی تعداد 5 ہوگئی۔

اگرچہ انہوں نے کسی مریض کا علاج تو نہیں کیا مگر انہیں وائرس کا شکار ہونے کے بعد 23 مارچ کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔

ڈاکٹر محمد سمیع — فوٹو بشکریہ الجزیرہ
ڈاکٹر محمد سمیع — فوٹو بشکریہ الجزیرہ

جمعرات کو وہ لندن میں چل بسے تھے اور ان کے بھتیجے عبدالرحمان نے بتایا 'میرے انکل دیانتدار، مہربان اور محنتی شخص تھے، وہ منکسرالمزاج اور گھروالوں اور دوستوں کے کام آنا پسند کرتے تھے'۔

ڈاکٹر محمد سمیع 1978 سے مغربی لندن میں واقع ہسپتال کیئرنگ کراس میں کام کررہے تھے۔

ان سے 2012 میں تربیت حاصل کرنے والے عمر قیصر نے انہیں سپرمین قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا 'وہ ایک نرم مزاج انسان تھے، جو اپنے جونیئر ڈاکٹروں سے مہربانی کے ساتھ پیش آتے، وہ ہر جونیئر ڈاکٹر کے لیے علم کا ایک خزانہ چھوڑ گئے ہیں، انہوں نے خود مجھے تربیت دی تھی کیونکہ میں بریسٹ کینسر میں دلچسپی رکھتا تھا اور جو کچھ میں اب کرتا ہوں، وہ وہی ہے جو وہ کرتے تھے'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں