کورونا وائرس: خلیجی ممالک پر انٹرنیٹ کالز کی بندش ختم کرنے پر زور

اپ ڈیٹ 08 اپريل 2020
عمان، قطر اور متحدہ عرب امارات میں مختلف ایپس بند ہیں—فائل فوٹو: شامین خان بروہی
عمان، قطر اور متحدہ عرب امارات میں مختلف ایپس بند ہیں—فائل فوٹو: شامین خان بروہی

انسانی حقوق کے گروپس نے 3 خلیجی ریاستوں پر زور دیا ہے کہ وہ عالمی وبا کورونا وائرس کے دوران مفت انٹرنیٹ کالز پر پابندی کو ختم کرے تاکہ وہاں موجود بڑے پیمانے پر تارکین وطن کی افرادی وقت رابطے میں رہ سکیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق عمان، قطر اور متحدہ عرب امارات نے ریاست کی ٹیلی کامز کے تجارتی مفادات کے تحفظ کو دیکھتے ہوئے مختلف وائس اور ویڈیو کالنگ ایپلیکیشنز کو طویل عرصے سے بلاک کیا ہوا ہے۔

اپنے بیان میں انسانی حقوق کے گروپس نے کہا کہ اس پابندی کی وجہ سے ان ممالک میں رہنے والوں خاص طور پر تارکین وطن ورکرز کی اکثریت اور غیرملکی رہائشی جو اپنے اہل خانہ اور کمیونٹریز سے بیرون ملک بات کرنا چاہتے ہیں انہیں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔

مزید پڑھیں: اسرائیل کا خلیجی ممالک کے ساتھ عدم جارحیت کے معاہدے کا عندیہ

واضح رہے کہ ان 3 خلیجی ممالک میں تقریباً ایک کروڑ 70 لاکھ تارکین وطن مقیم ہیں جس میں زیادہ تر کم تنخواہ دار مزدور ہیں جن کا تعلق ایشیا سے ہے۔

یہاں یہ بھی بات قابل ذکر رہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران یو اے ای اور عمان نے کچھ کالنگ ایپس پر پابندی میں نرمی کی ہے لیکن یہ عارضی بنیادوں پر ہے۔

انہوں نے وہ ایپلیکیشنز کو ان بلاک کیا ہے جو ڈسٹینس لرننگ کی اجازت دیتی ہیں جس میں مائیکروسافٹ ٹیمز، اسکائپ برائے کاروبار، گوگل ہینڈآؤٹس اور زووم شامل ہیں، مزید یہ کہ قطر میں مائیکروسافٹ ٹیمز اور زووم بھی دستیاب ہیں۔

علاوہ ازیں یو اے ای میں ریاستی ٹیلی کام کی کمپنیز نے کچھ نئی ایپ متعارف کروائی ہیں، جس میں یو اے ای وائس آڈیو اور ویڈیو کالز کی مفت اجازت ہے۔

تاہم انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والے اور 28 دیگر سول سوسائٹی گروپس کی جانب سے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ عالمی وبا کے درمیان مسلسل کالز کیلئے پالیسی میں تبدیلی کے مطالبے کے باوجود واٹس ایپ، اسکائپ اور فیس ٹائم جیسی مشہور ایپس بلاک ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: خلیجی ممالک میں غیر ملکی ورکرز مشکلات کا شکار

انہوں نے کہا کہ خلیجی ممالک کی آبادی کو اس پلیٹ فارمز تک رسائی دینے سے انکار کرنا لوگوں کے لیے سنگین خطرہ ہے کیونکہ یہ عمل انہیں بیرون ملک رابطے اور اس وسائل سے روک دیتا ہے جن کی اس بحرانی صورتحال میں انہیں ضرورت ہے۔

خیال رہے کہ ایک بڑی ٹینکالوجی طاقت بننے کے خواہشمند ہونے کے باوجود متحدہ عرب امارات نے سائبر کرایم کے سخت قوانین عائد کیے اور اسے برقرار رکھا جسے سول سوسائٹی کے گروپس اعلیٰ سطح کی آن لائن پابندیاں اور نگرانی قرار دیتے ہیں۔

خیال رہے کہ دسمبر میں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے یو اے ای کی خفیہ سروسز پر الزام لگایا تھا کہ وہ نئی ایپ ٹو ٹوک کو صارفین کی جاسوسی کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں