ڈان اخبار میں مورخہ 5 جنوری 2008ء کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق ایک دہائی قبل بحیرہ عرب میں سندھ اور بلوچستان کے پانیوں کے قرب و جوار میں ڈولفن اور وہیل مچھلیوں کی درجن بھر نسلوں کو دیکھا گیا تھا۔ جنگلی حیات میں دلچسپی رکھنے والوں کو یہ بات جان کر مزید خوشی ہوگی کہ ان ڈولفن کو اب بھی بالخصوص نومبر اور دسمبر کے دنوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ان مہینوں میں یہ مچھلیاں ہمارے ساحلوں کے قریب ہوتی ہیں۔

2019ء کے نومبر اور دسمبر میں بھی سینڈسپٹ، کنڈ ملیر، میانی ہور، سون میانی اور ڈمب و دیگر قرب و جوار کے مقامات پر ڈولفن کے ان گنت گروہ دیکھے گئے تھے۔

میانی ہور 25 سے 30 میٹر گہری، 60 کلومیٹر طویل اور 5 کلومیٹر تک وسیع ایک ساحلی جھیل ہے۔ یہاں مینگروز یا تمر کی 3 اقسام پائی جاتی ہیں اور یہ شمالی بحیرہ عرب سے منسلک پاکستان کے ساحل پر موجود ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان سے بطور (میرین فشریز) ٹیکنیکل ایڈوائزر منسلک اور پاکستان وہیل اینڈ ڈولفن سوسائٹی کے چیئرمین محمد معظم خان کے تحقیقی مقالے کے مطابق یہ ساحلی جھیل 60 سے 80 معدومیت کے خطرے سے دوچار انڈین اوشین خمیدہ پشت ڈولفن کا گھر ہے۔ اسی طرح خطرات سے دوچار مہیپر سے عاری بونس مچھلی بھی بعض اوقات اسی جگہ پر اگرچہ کم تعداد میں لیکن دکھائی دے جاتی ہے۔

ایک طرف جہاں سندھ کے پانیوں میں یہ ڈولفن صرف موسمِ سرما کے دوران دکھائی دیتی ہیں تو دوسری طرف بلوچستان چونکہ ڈولفن کا مستقل گھر ہے اس لیے یہاں پورا سال ان کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ گزشتہ 5 برسوں میں ڈولفن مچھلیوں کی نظارہ بینی سیاحت کو اٹھان ملی ہے۔ سیاحت کا یہ فروغ ساحلی علاقہ مکینوں کے لیے باعثِ رحمت ثابت ہوا ہے۔

بحیرہ عرب میں دیکھی گئی ڈولفن—تصویر امین دیسائی
بحیرہ عرب میں دیکھی گئی ڈولفن—تصویر امین دیسائی

وہیل، ڈولفن اور بونس مچھلیاں آبی ممالیہ ہیں جو اپنی ذہانت کے لیے جانی جاتی ہیں۔ یہ حرارت گیر (endothermic) نسلوں سے تعلق رکھتی ہیں جنہیں (Cetacea) حوتیہ پکارا جاتا ہے۔ ان حوتیہ سلسلے کی مچھلیوں کی موجودگی صحتمند ماحولیاتی نظام اور دیگر سمندری جانداروں کی بہتات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ بلاشبہ ان سمندری ممالیوں اور دیگر سفری نسلوں کے تحفظ کے لیے مقامی سطح پر اقدامات کرنے ہوں گے اور غیر قانونی جال کے استعمال اور شکار کے عمل پر سخت سزائیں مقرر کرنا ہوں گی۔

جب قوانین پر عمل درآمد نہیں ہوتا تو صرف ماحول کے بارے میں فکرمند چند افراد اور ادارے ہی صحیح اور غلط کی تمیز کرپاتے ہیں۔ مثلاً صرف گزشتہ برس کے دوران 2 بار ڈولفن کو ریسکیو کیا گیا۔ ایک بار جب 2 میٹر طویل پینٹراپیکل داغدار ڈولفن (Pantropical spotted dolphin) کراچی کے جنوب مشرق میں قریب 176 کلومیٹر دُور مچھلیاں پکڑنے والے گلپھڑا جال (Gill net) میں پھنس گئی تھی تو ماہی گیروں نے اسے دوبارہ سمندر میں چھوڑ دیا۔ دوسرے موقعے پر ڈیڑھ میٹر لمبی خطرے سے دوچار انڈین اوشین خمیدہ پشت ڈولفن بھی اسی طرح بلوچستان کے ساحل کے پاس پکڑی اور پھر چھوڑی گئی تھی۔

اگرچہ ان ڈولفن مچھلیوں کو بچایا اور پھر سمندر میں چھوڑا تو گیا تھا لیکن اس طرح کی رحم دلی سے بھرپور کاموں کی انجام دہی اور ذمہ داری کا ایسا مظاہرہ شاذونادر ہی نظر آتا ہے، جس کی وجہ سے ڈولفن کی اموات میں اضافہ ہوتا ہے۔ تاہم شکر ہے کہ ڈولفن کی سابقہ سالانہ 12 ہزار اموات کے مقابلے میں آج یہ تعداد ایک اندازے کے مطابق فی سال 30 سے 40 اموات تک آ پہنچی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ماہی گیر برادریوں میں بڑھتی آگاہی کو قرار دیا جاسکتا ہے۔

معظم خان کہتے ہیں کہ 'ڈولفن کی اموات کی ایک بڑی وجہ مقامی ماہی گیروں کی جانب سے روایتی ماہی گیری کے طریقوں کا استعمال تھا۔ ماہی گیروں کو اس مسئلے کا یہ حل تجویز کیا گیا کہ مچھلی پکڑنے کے لیے جالوں کو پانی میں کم از کم مزید 2 میٹر نیچے اتارا جائے، اور جب ایسا کیا گیا تو ڈولفن کی اموات میں نمایاں کمی آئی۔ 2012ء میں اموات کی تعداد 12 ہزار تھی، پھر وہ گھٹتے گھٹتے 2018ء میں 182 اور 2019ء میں 40 کے قریب آ پہنچی ہے جو ہمارے لیے ایک بڑی کامیابی ہے! اسی طریقہ کار کی مدد سے ہزاروں کی تعداد میں کچھوے جال میں پھنسنے اور مرنے سے محفوظ رہے'۔

پاکستان کے بیرونی پانیوں کے حصے میں پائی جانے والی ڈولفن مچھلیوں میں ریسو ڈولفن، خمیدہ پشت ڈولفن، اسپنر ڈولفن، بوٹل نوز ڈولفن اور فالس کلر وہیل (یہ بھی ایک ڈولفن ہے) شامل ہیں۔ جہاں تک وہیل کی نسلوں کا تعلق ہے تو ان میں کیوویر کی چونچ والی (Cuvier's beaked) وہیل، برائڈ وہیل، نطفہ (Sperm) وہیل، فِن وہیل اور خمیدہ پشت وہیل مچھلیوں کو دیکھا جا چکا ہے۔

دنیا کے مختلف ممالک وہیل، ڈولفن اور بونس مچھلیوں کو قید کرنے پر پابندی عائد کرچکے ہیں۔ کینیڈا بھی انہی میں سے ایک ہے جہاں حال ہی میں اس پابندی سے متعلق قانون کو نافذ کردیا گیا ہے۔

ٹوئٹر پر ٹرینڈ کرنے والے پیش ہیش ٹیگ EmptyTheTanks# کے ساتھ جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں نے اس خبر کو خوب سراہا۔ عالمی سطح پر ڈولفناریم نے یہ تسلیم کیا کہ انسانوں کی تفریح کے لیے سمندری ممالیوں کو قید میں رکھنا بدترین ظلم سے کم نہیں۔ جون 2019ء میں جرمنی نے پہلی مرتبہ زندہ جانوروں کے بجائے ہولوگرام ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے سرکس شو پیش کیا تھا یوں ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے جانوروں کے کرتب دکھا کر ان پر ظلم سے جڑے خدشات کو دُور کیا گیا۔

ساحلی پٹی پر آباد شہروں میں سمندری سیاحت اور ڈولفن اور وہیل کی نظارہ بینی کی سرگرمیوں کی بڑھتی مقبولیت کے باعث خوشحالی پیدا ہوئی ہے۔ ان سرگرمیوں کے پیچھے یہ خیال کارفرما ہے کہ مچھلیوں کو ٹینک میں مقید دیکھنے کے بجائے ان کو اصل فطری ماحول میں دیکھا جائے۔ اس خاص قسم کی سیاحت کے فروغ کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ دنیا میں سالانہ ایک کروڑ 50 لاکھ افراد وہیل (و دیگرحوتیہ مچھلیوں) کو دیکھنے جاتے ہیں اور اس عدد میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ بالخصوص ترقی پذیر ممالک اس اربوں ڈالر کی صنعت سے خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو بڑی بڑی مچھلیاں اکثر سردیوں میں پاکستانی پانیوں میں بھی نظر آتی ہیں اور چند ساحلی علاقوں میں ان کی آبادیاں بھی ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان سمندری اور مچھلیوں کی نظارہ بینی سیاحت میں دیگر ملکوں سے کافی پیچھے ہے۔

سندھ اور بلوچستان کے ساحلوں کے پاس ڈولفن اور وہیل کے نظاروں کی کمی نہیں ہے۔ اب تک PALS Rescue کی سیاحتی شاخ PALS Outdoor (پی اے ایل ایس آؤٹ ڈور) ایک ایسا واحد ادارہ ہے جس نے دمب بلوچستان میں ڈولفن نظارہ بینی سے متعلق دورے کروانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس کا مقصد مقامی سیاحت کو پروان چڑھانا اور صوبے میں سیاحتی مقامات کی برانڈنگ کے ذریعے آگاہی پھیلانا ہے۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ایک غیر سرکاری تنظیم نے اپنے دائرہ نظر کو وسیع کیا اور نمایاں ہوتے علاقے کو دریافت کیا۔

پی اے ایل ایس ریسکیو کے بانی و صدر رضا صمد کہتے ہیں کہ 'ہمیں اپنے ملک اور خاص طور پر بلوچستان میں دیدنی نظاروں سے بھرپور مقامات پر ترجیحی بنیادوں پر ایکو ٹؤرزم کو فروغ دینے کے لیے مطلوب کاموں کو انجام دینے کا یہی صحیح وقت ہے۔ اس کام کی انجام دہی اور تفریحی اور آگاہی ٹرپس کی بنیاد ڈالنے والے اداروں کی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے حکومتی معاونت حاصل ہونا نہایت ضروری ہے۔ اس طرح نہ صرف مقامی سیاحت کو فروغ ملے گا بلکہ مقامی آبادی کے لیے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے'۔

ڈولفن مچھلیاں رابطہ کاری کی منفرد صلاحیت رکھتی ہیں اور اسمتھ سونین میگزین (22 جولائی 2013ء) کے مطابق یہ مچھلیاں ایک دوسرے سے رابطہ کرنے کے لیے 4 ہزار سے زائد مختلف اقسام کی سیٹیاں استعمال کرتی ہیں۔ ہر ایک ڈولفن مچھلی کی اپنی الگ سیٹی کی آواز ہوتی ہے اور جب ایک ڈولفن کسی دوسری ڈولفن کو پکارتی ہے تو وہ اپنی منفرد سیٹی سے اس کا جواب دیتی ہے۔

جہاں تک سمندری دنیا میں توازن کو برقرار رکھنے کا تعلق ہے تو وہیل مچھلیاں بڑی مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ذخیرہ اور فائیٹو پلنکٹن (باریک الجی) کی پیداوار میں مدد فراہم کرنے کے حوالے سے مشہور ہے۔ یہ الجی فوٹوسینتھیسز عمل کے استعمال سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور سورج کی روشنی کو مؤثر طریقے سے توانائی میں تبدیل کردیتا ہے۔ فائیٹو پلنکٹن میں ایک فیصد اضافہ زمین پر 2 ارب درختوں کے برابر ہے۔ چونکہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے بُری طرح متاثر ہونے والے سرِفہرست 10 ملکوں میں شامل ہے اس لیے ان حوتیہ مچھلیوں کا تحفظ اور ان کی دیکھ بھال کئی حوالوں سے اہم بن جاتی ہے۔


یہ مضمون 12 اپریل 2020ء کو ڈان اخبار کے ایؤس میگزین میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں