'ڈاکٹرز و طبی عملے کے وائرس کا شکار ہونے سے نظام صحت متاثر ہوسکتا ہے'

اپ ڈیٹ 14 اپريل 2020
ڈاکٹرز کو تجویز دی گئی کہ کا ٹیسٹ مثبت نہیں آیا تو وہ خود کو الگ تھلگ کرنے کی تجاویز کو نظرانداز  کریں — فائل فوٹو: ڈان
ڈاکٹرز کو تجویز دی گئی کہ کا ٹیسٹ مثبت نہیں آیا تو وہ خود کو الگ تھلگ کرنے کی تجاویز کو نظرانداز کریں — فائل فوٹو: ڈان

اسلام آباد: ملک بھر میں کورونا وائرس کے ساڑھے پانچ ہزار کیسز اور تقریباً 100 اموات کے پیش نظر طبی برادری کو خدشہ ہے کہ ڈاکٹرز اور طبی عملے کی بڑی تعداد کے وائرس کا شکار ہونے سے نظام صحت متاثر ہو سکتا ہے۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے حکومت سے اپنی پالیسی کو تبدیل کرنے کی اپیل کی ہے جہاں موجودہ پالیسی کے تحت صرف قرنطینہ سہولیات اور تنہائی کے وارڈوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز ذاتی حفاظتی سامان (پی پی ایز) کے حقدار ہیں.

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے اس پالیسی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ تمام ہیلتھ کیئر ورکرز یکساں خطرے سے دوچار ہیں۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس: سندھ میں مزید 4 افراد کی موت، مجموعی تعداد 100 ہوگئیں

ایسوسی ایشن نے ڈاکٹروں کو بھی کہا کہ اگر ان کا ٹیسٹ مثبت نہیں آیا تو وہ خود کو الگ تھلگ کرنے کی تجاویز کو نظر انداز کریں کیونکہ ایسی صورت میں ہزاروں مریضوں کی جان خطرے میں پڑسکتی ہے۔

پی ایم اے کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے ڈان کو بتایا کہ ایسوسی ایشن نے جنوری میں انتباہ جاری کیا تھا کہ صورتحال خراب ہوسکتی ہے لیکن حکومت نے توجہ نہیں دی۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی کی بات ہے کہ آج تک حکومت یہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہے کہ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے تمام افراد کو حفاظتی کٹس کی ضرورت ہے اور وہ بھی وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا مہلک وبا سوائن فلو سے 10 گنا زیادہ خطرناک ہے، عالمی ادارہ صحت

اتوار کو وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا تھا کہ صحت کی دیکھ بھال کرنے والوں کو پی پی ایز کے غیر معقول استعمال کو ختم کرنا چاہیے، انہوں نے کہا کہ اس طرح کے سازوسامان خصوصاً این-95 ماسک کو غلط طریقے سے استعمال کیا جارہا ہے اور صرف ڈاکٹروں کو ہی این-95 ماسک کی ضرورت ہے کیونکہ ان کا ہر کسی کی جانب سے استعمال ان لوگوں کے لیے نقصان دہ ہوگا جن کو اس کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر سجاد نے بتایا کہ ملتان کے نشتر میڈیکل ہسپتال میں 17 ڈاکٹروں سمیت صحت کے عملے کے 38 افراد کے ٹیسٹ مثبت آئے۔

انہوں نے کہا کہ ابتدائی طور پر محکمہ نیفروولوجی کے ایک ڈاکٹر گردے کے مریض سے وائرس کی زد میں آئے حالانکہ مذکورہ مریض میں جس میں کووڈ-19 کی کوئی علامت نہیں تھی اور پھر یہ وائرس پورے ہسپتال میں پھیلنے لگا۔

مزید پڑھیں: سندھ کے تاجروں کا 15اپریل سے کاروبار کھولنے کا اعلا

انہوں نے کہا کہ کراچی کے شہید بینظیر بھٹو ٹراما سینٹر اور سول ہسپتال میں چھ ڈاکٹروں اور آٹھ پیرامیڈکس کے کورونا کے ٹیسٹ مثبت آئے، دونوں ہسپتالوں میں 13 مشتبہ مریض بھی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ عباسی شہید ہسپتال میں دو اور تبلیغی اجتماع میں شرکت کرنے والے لیاقت نیشنل ہسپتال کے ایک ڈاکٹر کا بھی ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ پشاور کے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں کام کرنے والے ایک ای این ٹی پروفیسر کو کورونا وائرس کا شکار ہونے کے باعث وینٹیلیٹر پر رکھا گیا ہے۔

لاہور میں گائناکولوجسٹ، انہوں نے جس خاتون کا آپریشن کیا ہے اس کے شوہر بیرون ملک سے واپس لوٹے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے اس جوڑے کو کووڈ 19 ٹیسٹ کی تجویز دی، شوہر اور بیوی دونوں کا ٹیسٹ مثبت آیا اور ڈاکٹر قرنطینہ میں رکھ دیا گیا، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دوسرے محکموں میں کام کرنے والے ڈاکٹر بھی وائرس کی زد میں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بزرگوں کی حفاظت کیلئے ان سے فاصلہ رکھیں، وزیراعلیٰ سندھ کی اپیل

ڈاکٹر سجاد نے مزید کہا کہ متعدد تصدیق شدہ مریضوں میں مرض کی کوئی علامات نہیں تھیں، انہوں نے مزید کہا کہ ایسے مریض اس بیماری کو زیادہ سے زیادہ لوگوں میں منتقل کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کچھ ڈاکٹروں نے مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے خود کو الگ تھلگ رکھیں لیکن پی ایم اے نے اپیل کی ہے کہ وہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ یہ صحت کے پورے نظام کی تباہی کا سبب بنے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں خوف ہے کہ آنے والے وقتوں میں صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے کیونکہ پیر کو ملک بھر میں کووڈ 19 کے 300 کیس رپورٹ ہوئے۔

پیر کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر مرزا نے کہا تھا کہ ملک میں 52 فیصد کورونا کے کیس مقامی سطح پر منتقل ہوئے ہیں جس کی وجہ سے زیادہ تیزی سے ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا میں قرنطینہ مراکز کے فضلے سے وائرس کے پھیلاؤ کا خدشہ

انہوں نے کہا کہ ابتدائی طور پر قومی انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ واحد لیبارٹری تھی جس میں کووڈ 19 ٹیسٹ کروانے کی گنجائش موجود تھی لیکن اب یہ تعداد بڑھ کر 27 ہوگئی ہے۔

انہوں نے بتایا تھا کہ کچھ ہی دنوں میں مزید سات لیبز کام کرنے لگیں گی، انہوں نے مزید کہا کہ یہاں ٹیسٹنگ کٹس کی دستیابی کا بھی ایک مسئلہ تھا لیکن اب ہمارے پاس 600،000 کٹس ہیں اور 15 اپریل تک یہ تعداد 10 لاکھ سے تجاوز کر جائے گی، ہم فی الحال 3،000 ٹیسٹ یومیہ کر رہے ہیں لیکن اس ماہ کے آخر تک ہم ہر روز 20،000 سے 25،000 ٹیسٹ کرنا شروع کردیں گے کیونکہ ہمیں ہر ماہ 600،000 ٹیسٹنگ کٹس کی ضرورت ہے۔


یہ خبر 14اپریل 2020 بروز منگل کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں