امریکی صدر نے عالمی ادارہ صحت کے فنڈز روک دیے

اپ ڈیٹ 15 اپريل 2020
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائرس کا پھیلاؤ روکنے میں ناکامی پر عالمی ادارہ صحت کے فنڈ روکے— فائل فوٹو: اے ایف پی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائرس کا پھیلاؤ روکنے میں ناکامی پر عالمی ادارہ صحت کے فنڈ روکے— فائل فوٹو: اے ایف پی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کورونا وائرس سے نمٹنے میں ناکامی پر عالمی ادارہ صحت کے فنڈ روک دیے ہیں جس پر ماہرین صحت نے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

صدی کی بدترین عالمی وبا سے نمٹنے میں ناکامی اور دنیا بھر میں سب سے زیادہ اموات پر ٹرمپ انتظامیہ کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس پر وہ مستقل اپنا غصہ عالمی ادارہ صحت پر نکال رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس سے دنیا بھر میں ہلاکتوں کی تعداد ایک لاکھ 20 ہزار سے متجاوز

ٹرمپ نے منگل کو کہا کہ عالمی ادارہ صحت نے وائرس کے حوالے سے چین کی غلط معلومات کو فروغ دیا جس کی وجہ سے یہ کئی گنا بڑے پیمانے پر پھیل گئی۔

انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ عالمی ادارہ صحت اپنے بنیادی فرض کی ادائیگی میں ناکام رہا لہٰذا اسے ذمے دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے سلسلے میں شفافیت برقرار رکھنے میں ناکام رہا اور میں اپنی انتظامیہ کو فنڈز روکنے کی ہدایت کرنے لگا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ وائرس کے پھیلاؤ اور سنگین بدانتظامی میں عالمی ادارہ صحت کے کردار کا جائزہ لیا جائے گا اور اب ہم بات کریں گے کہ جو رقم عالمی ادارہ صحت کو جاتی تھی اس کا کس طرح استعمال کیا جائے گا۔

امریکی صدر نے کہا کہ اگر عالمی ادارہ صحت نے طبی ماہرین کو بھیج کر صورتحال کا جائزہ لینے کا اپنا فرض انجام دیا ہوتا اور وائرس کے حوالے سے چین کی شفافیت پر سوالات اٹھائے ہوتے تو اس وائرس کو پھیلنے سے روک کر کئی ہزاروں افراد کو مرنے اور عالمی معیشت کو تباہی سے بچایا جا سکتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: شام: 30 لاکھ افراد کے لیے کورونا ٹیسٹ کے نتائج بنانے والی ایک مشین

جان ہوپکنز یونیورسٹی کے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ سال چین سے جنم لینے والے وائرس سے دنیا بھر میں 20 لاکھ سے زائد افراد متاثر اور ایک لاکھ 24 ہزار اموات ہو چکی ہیں۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ یہ ڈبلیو ایچ او کے وسائل میں کمی کا مناسب وقت نہیں، وائرس کا پھیلاؤ اور اس کے خطرناک نتائج کو روکنے کے لیے یہ اتحاد اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر یکجہتی سے کام کرنے کا وقت ہے۔

اقوام متحدہ دنیا بھر میں عالمی ادارہ صحت کا سب سے بڑا ڈونر ہے جس نے 2019 میں 40 کروڑ ڈالر سے زائد کی رقم عطیہ کی تھی جو مجموعی بجٹ کا 15 فیصد بنتی ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت: کورونا کا ٹیسٹ کرنے کے بہانے روکی گئی خاتون کا گینگ ریپ

آسٹریلین وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے امریکی صدر سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے تنقید کو کسی حد تک جائز قرار دیا اور کہا کہ عالمی ادارہ صحت نے چین کو مکمل سپورٹ کرتے ہوئے 'ویٹ مارکیٹس' کھولنے کی اجازت دی جہاں ذبح کیے جانے والے جانور فروخت کیے جاتے ہیں اور جہاں گزشتہ سال ووہان میں پہلا کیس سامنے آیا تھا۔

لیکن انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت نے خصوصی طور پر پیسیفک خطے میں بہت کام کیا ہے اور ہم ان سے مکمل رابطے میں ہیں۔

امریکا میں صرف منگل کو 2 ہزار 200 افراد ہلاک ہو ئے جس کے بعد امریکی معیشت اور دیگر سرگرمیوں کو فوری طور پر کھولنے یا نہ کھولنے کے حوالے بحث شروع ہو گئی ہے۔

امریکا میں نیویارک شہر سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں اب تک کم از کم 10 ہزار افراد مر چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ میں بھی متعدد کاروبار کھولنے کی اجازت

امریکا کی جانب سے فنڈز روکے جانے کے بعد امریکی ایوان نمائندگان سمیت دیگر ممالک اور ماہرین نے خبردار کیا کہ فنڈز روکنے سے ادارے کی وائرس سے لڑنے کی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے۔

امریکی ایوان نمائندگان نے صدر ٹرمپ کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بدترین بحران میں ہر گزرتے دن کے ساتھ صدر اپنی سیاسی بصیرت کا ثبوت دیتے عالمی ادارہ صحت، سیاسی مخالفین، چین، اپنے پیشرو کو ذمے دار ٹھہرا رہے ہیں تاکہ اس حقیقت سے لوگوں کی توجہ ہٹا سکیں کہ ان کی انتظامیہ اس بحران سے نمٹنے میں ناکام رہی اور اب اس سے ہزاروں امریکی انسانی جانوں کا ضیاں ہو رہا ہے۔

امریکی میڈیکل ایسوسی ایشن نے ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے غلط سمت میں خطرناک قدم قرار دیا ہے۔

امریکی میڈیکل ایسوسی ایشن ڈاکٹر پیٹریس ہیرس نے کہا کہ ٹرمپ کے اس فیصلے سے کووڈ-19 کو شکست دینے میں کوئی مدد نہیں ملے گی اور انہیں اپنے فیصلے پر غور کرنا چاہیے۔

جان ہوپکنز یونیورسٹی کے سینٹر فار ہیلتھ کے ماہر ڈاکٹر امیش ایڈلجا نے خبردار کیا کہ اس اقدام سے اس وبا کے درمیان میں غلط پیغام جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت سے غلطی ہوئی جیسا کہ 2013 اور 2014 میں ایبولا کی وبا پھیلنے کے وقت ان سے غلطی ہوئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں