چند ہزار نہیں 21 کروڑ عوام کو سامنے رکھ کر فیصلے کر رہے ہیں، اسد عمر

اپ ڈیٹ 15 اپريل 2020
ہمیں اس وقت دو مختلف قسم کی رائے اور آوازیں سننے کو مل رہی ہیں، اسد عمر — فوٹو: ڈان نیوز
ہمیں اس وقت دو مختلف قسم کی رائے اور آوازیں سننے کو مل رہی ہیں، اسد عمر — فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا ہے کہ ہم پوری سچائی اور دیانتداری کے ساتھ عوام کے سامنے حقائق رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور چند ہزار لوگوں کے بجائے 21 کروڑ عوام کو سامنے رکھ کر فیصلے کر رہے ہیں۔

کورونا وائرس سے متعلق معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا اور ڈاکٹر معید یوسف کے ہمراہ میڈیا بریفنگ کے دوران اسد عمر نے کہا کہ 'کورونا کے علاوہ دنیا میں کسی بھی بیماری کے خاتمے کے لیے یہ توازن برقرار رکھا جاتا ہے کہ ایک تو اس بیماری کو پھیلنے سے روکا جائے دوسرا کم آمدنی والے طبقہ بوھاکا نہ رہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'کورونا کے باعث آج پوری دنیا میں یہ بات ہورہی ہے کہ اس توازن کو کیسے برقرار رکھا جائے، لیکن باقی دنیا کی معیشت کے اثرات مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں، پاکستان میں اس کا ایک جو معاشی پہلو ہے وہ بھوک ہے، تاہم یہ واحد اثر نہیں ہے، وہ لوگ جو روز کماتے ہیں یا وہ لوگ جو اپنی آمدنی میں بمشکل گزارا کرتے ہیں ان پر آمدنی ختم ہونے کا کیا اثر ہوتا ہے یہ بات میری جتنی آمدنی والے افراد نہیں سمجھ سکتے کیونکہ ہم نے ایسی صورتحال کبھی نہیں دیکھی۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'اس لیے ہمیں اس وقت دو مختلف قسم کی رائے اور آوازیں سننے کو مل رہی ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ جو یہ کہتے ہیں کہ بیمارے کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرو لیکن ساتھ ساتھ ملک کے وہ کروڑوں لوگ جو صاحب ثروت نہیں ہیں آمدنی ختم ہونے سے ان کو جو مشکلات درپیش ہوں گی ان کا بھی خیال رکھو، لہٰذا یہ وہ لوگ نہیں کہتے ہیں کہ لوگ مرتے ہیں تو مرجائیں۔'

اسد عمر نے کہا کہ 'اسی طرح وہ لوگ جو یہ چاہتے ہیں کہ اس وقت زیادہ توجہ بیماری کا پھیلاؤ روکنے کی طرف ہونی چاہیے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ غریب آدمی بے شک مرجائے، یہ ایک مشکل صورتحال ہے جس میں اچھی نیت رکھنے والے اور سوچ سمجھ رکھنے والے لوگوں کے فیصلے بھی مختلف ہوسکتے ہیں۔'

انہوں نے کہا کہ 'ہم پوری سچائی اور دیانتداری کے ساتھ عوام کے سامنے حقائق رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور جو صورتحال آگے دیکھ رہے ہیں وہ عوام کے سامنے رکھ رہے ہیں اور چند ہزار لوگوں کے بجائے 21 کروڑ عوام کو سامنے رکھ کر فیصلے کر رہے ہیں۔'

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس:سندھ میں مزید 6 اموات، پنجاب کے کیسز 3 ہزار سے تجاوز کرگئے

ان کا کہنا تھا کہ 'دوسرا پہلو یہ ہے کہ لوگوں کی ایک سوچ یہ بھی ہے کہ ملک میں ایک فیصلہ ہونا چاہیے جسے پورے ملک میں نافذ کردینا چاہیے، ایک حد تک اس بات میں منطق ہے لیکن فیصلے زمینی حقائق کے مطابق لیے جاتے ہیں، زمینی حقائق میں بیماری کے پھیلاؤ اور معاشی پہلو بھی آتا ہے، قوم کی بنیادی سمت ایک نظر آنی چاہیے اور قوم کے لیے ضروری ہے کہ تمام اکائیں مل کر کام کریں اور کوشش کریں کہ باہمی ربط کے ساتھ فیصلے کیے جائیں۔'

لیکن میرے خیال میں مقامی نوعیت کے معاملات سے متعلق صوبوں کو بلکہ ضلعی انتظامیہ کو بھی فیصلوں کا اختیار ہونا چاہیے۔

مقامی طور پر وائرس منتقل ہونے کی شرح 54 فیصد ہے، ظفر مرزا

معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ 'ہمارے ملک میں دیگر ممالک کی نسبت کورونا وائرس کے کیسز اور اموات یقیناً کم ہیں لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم بے احتیاطی کریں۔'

انہوں نے کہا کہ جن صنعتوں کے کھولنے کا کل اعلان کیا گیا ان کے حوالے سے وزارت صحت نے ماہرین کے مشورے کے ساتھ گائیڈ لائنز مرتب کی ہیں جو کورونا کے اعداد و شمار کی حکومتی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔'

ملک میں کورونا کے اعداد و شمار بتاتے ہوئے معاون خصوصی نے بتایا کہ 'پاکستان میں اب تک 73 ہزار 439 ٹیسٹ ہوچکے ہیں جن میں سے مثبت نتائج 5 ہزار 988 آئے ہیں۔'

انہوں نے کہا کہ 'وزارت صحت نے ماہرین کی مدد کے ساتھ جو تخمینے لگائے تھے اس کے تحت آج کے دن تک پاکستان میں 18 ہزار سے زائد کیسز کی توقع تھی، اس رجحان کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی کوششیں جاری رکھیں باوجود اس کے کہ ہم بتدریج مختلف صنعتیں کھول رہے ہیں۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'ملک میں مقامی طور پر وائرس منتقل ہونے کی شرح 54 فیصد ہے اور باہر سے وائرس لے کر آنے والوں کی شرح میں بتدریج کمی آرہی ہے۔'

مزید پڑھیں: کوئی سمجھتا ہے ہمارے ملک میں وائرس دنیا سے کم ہے تو وہ غلط ہے، وزیر اعلیٰ سندھ

باہر سے آنے والے پاکستانیوں کو ہوٹل میں قرنطینہ کا خرچہ خود اٹھانا ہوگا، معید یوسف

اس موقع پر معاون خصوصی برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے کہا کہ 'رواں ہفتے بیرون ممالک سے لگ بھگ 2 ہزار پاکستانی واپس آرہے ہیں، پاکستانیوں کی واپسی کے لیے ہم نے اپنے 6 ایئرپورٹس کھول دیے ہیں، بیرون ملک سے آنے والے ہر مسافر کا ٹیسٹ کرنا ضروری ہے اور ایسے جتنے مسافروں کے ہم ٹیسٹ کرتے ہیں اتنی اندرون ملک ٹیسٹ کی صلاحیت متاثر ہوتی، لہٰذا جیسے جیسے ہماری ٹیسٹ کی صلاحیت بڑھے گی بیرون ممالک سے آنے والے پاکستانیوں کی تعداد بھی بڑھے گی۔'

انہوں نے کہا کہ 'دوسرا ہماری قرنطینہ کی سہولیات سے بھی اس کا تعلق ہے اور ہم اسے بھی بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں، تاہم اگلے ہفتے سے ان مسافروں کی تعداد 6 سے 7 ہزار تک ہوجائے گی۔'

معید یوسف نے کچھ ممالک سے پاکستانیوں کو واپس لانے اور کچھ سے نہ لانے سے متعلق کہا کہ 'ہم نے آغاز میں برطانیہ اور کینیڈا کے لیے پی آئی اے کی پروازیں چلائیں اور وہاں پھنسے پاکستانیوں کو واپس لائے، ہم مختلف ممالک سے ترجیحی بنیادوں پر پاکستانیوں کو واپس لا رہے ہیں اور منطقی فیصلے کر رہے ہیں۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'جو پاکستانی بیرون ممالک سے آرہے ہیں انہیں قرنطینہ کرنا ضروری ہے اور ان کا ٹیسٹ بھی ہوگا، جو مسافر قرنطینہ کے لیے ہوٹل کی سہولت چاہتا ہے انہیں اپنے اخراجات خود اٹھانے ہوں گے ریاست کے پاس اس کی گنجائش نہیں ہے، جو یہ اخراجات نہیں اٹھا سکتے ان کے لیے حکومت کے قرنطینہ مراکز موجود ہیں۔

14 سے 18 اپریل تک بیرون سے آنے والے پاکستانیوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے معاون خصوصی نے بتایا کہ 'جاپان جانے والا ہمارا ایک جہاز وہاں اور تھائی لینڈ سے تقریباً 270 پاکستانیوں کو لے کر آیا ہے، آج اور کل دبئی سے تقریباً ہمارے 360 قیدی واپس آجائیں گے، سعودی عرب سے تقریباً 500 زائرین کل اور پڑسوں واپس آئیں گے، 16 اور 17 اپریل کو اومان میں رہا ہونے والے لگ بھگ 300 قیدی واپس آئیں گے، جبکہ 18 اپریل کو متحدہ عرب امارات سے 200 اور انڈونیشیا سے 225 لوگ واپس آئیں گے۔'

انہوں نے کہا کہ 'مقامی پروازیں ابھی معطل ہیں اور معطل ہی رہیں گی، زمینی سرحدوں کے حوالے سے ہم پورا لائحہ عمل تیار کر رہے ہیں کہ افغانستان سے ہمارے شہری واپس آسکیں جبکہ کافی کوششوں کے بعد بھارت سے واہگہ بارڈر کے ذریعے 41 پاکستانی واپس آئیں گے۔'

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں