جھوٹے الزام میں 20 سال قید کاٹنے والی خاتون معاوضے کی منتظر

اپ ڈیٹ 17 اپريل 2020
رانی بی بی نے بتایا کہ میرے پاس ابھی کچھ نہیں ہے—فائل فوٹو: ڈان نیوز
رانی بی بی نے بتایا کہ میرے پاس ابھی کچھ نہیں ہے—فائل فوٹو: ڈان نیوز

کراچی: شوہر کے قتل کے جھوٹے الزام میں 20 برس قید کاٹنے والی رانی بی بی اب آزاد ہیں اور اب معاوضے کی جنگ لڑرہی ہیں جو جھوٹے الزام میں زیر حراست افراد کے لیے ایک ٹیسٹ کی صورت اختیار کرگیا۔

رانی بی بی کی چھوٹی عمر میں ہی شادی ہوگئی تھی اور وہ 13 برس کی تھیں جس وقت پولیس نے انہیں شوہر کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا۔

رانی بی بی کہتی ہیں کہ ان کا شوہر ایک اچھا انسان تھے۔

مزیدپڑھیں: قانون و عدالتی نظام میں اصلاحاتی پیکیج کو حتمی شکل دی جائے، عمران خان

پولیس نے رانی بی بی کے والدین اور بھائی کو بھی گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا تھا۔

رابی بی بی بتاتی ہیں کہ یہ تمام افراد انہوں نے ایک ساتھ تب دیکھے تھے جب وہ شوہر کے ہمراہ اپنے والدین کے گھر گئیں تھیں۔

عدالتی دستاویزات کے مطابق رابی بی بی کے شوہر کی لاش ان کی رہائش گاہ سے 40 کلومیٹر دور پائی گئی اور ان کے سر پر گہری چوٹ کا نشان تھا۔

رابی بی بی نے ایک ایسے جرم کی پاداش میں 19 برس جیل میں گزرے جو انہوں نے کیا ہی نہیں تھا، وہ سیکڑوں قیدیوں کے لیے کھانا پکاتی اور سخت گرمی اور سردی میں لاتعداد فلورز کی صفائی کرتیں۔

پنجاب کے گاؤں مینرانجھا سے تعلق رکھنے والی 35 سالہ رانی بی بی نے فون پر بتایا کہ ’میں نے بہت مشقت والا کام کیا‘۔

رانی بی بی کو 2001 میں عمر قید ہوئی جس کے بعد سے وہ جیل میں بند رہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’بگرام‘ جیل میں بے گناہ قید کیے گئے پاکستانی معاوضے کے منتظر

جیل سپرنٹنڈنٹ متعدد مرتبہ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے میں ناکام رہا اور رانی بی بی ریاستی وکیل کی خدمات حاصل کرنے سے محروم رہیں اور نجی طور پر وکیل کے اخراجات برداشت کرنے کی استطاعت نہیں رکھتی تھیں۔

2014 میں ایک مقامی رفاہی ادارے کے تعاون سے وکیل نے رانی بی بی کے حوالے سے اپیل دائر کی۔

لاہور ہائیکورٹ نے 2017 میں عدم ثبوت پر رانی بی بی کو رہا کردیا اور معافی مانگتے ہوئے کہا کہ ’وہ صرف جیل حکام کے غیرجانبدار رویے کی وجہ سے جیل میں پھنسی رہیں‘۔

اس وقت جج نے اپنے حکم میں کہا کہ ’یہ عدالت انہیں معاوضہ دینے میں بے بس ہے‘۔

لیکن ان کی رہائی نے ایک نئی جنگ شروع کردی۔

رانی بی بی کے لیے کام کرنے والے ایک قانونی وکالت گروپ فاؤنڈیشن برائے بنیادی حقوق (ایف ایف آر) نے پٹیشن دائر کی جس میں پنجاب حکومت سے انصاف کی عدم فراہم کے بدلے میں معاوضے کا مطالبہ کیا گیا۔

مزید پڑھیں: تعلیمی انقلاب کیسے آئے گا؟

انہوں نے حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان میں غلط سزاؤں کے خلاف کارروائی کے لیے نئی قانون سازی کریں جہاں رانی بی بی جیسے ہزاروں مقدمات موجود ہیں۔

2019 میں اسی گروپ کی ایک رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے 2010 سے 2018 کے دوران سزائے موت کے 310 کیسز کی سماعت کی اور ہر 5 میں سے 2 قیدیوں کو جھوٹے الزام میں سزا دی گئی۔

اگرچہ رانی بی بی نے کوئی خاص رقم کا مطالبہ نہیں کیا لیکن انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ معاوضے سے انہیں نیا بستر، کمبل اور کپڑے، واشنگ مشین، لوہے اور ایک چولہا خریدنے میں مدد ملے گی۔

انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کچھ دعویٰ کرسکتی ہوں یا رقم کتنی ہونی چاہیے لیکن مجھے امید ہے کہ وہ مجھے صرف اتنا دے سکتے ہیں کہ میں اپنے گھر کے لیے چیزیں خرید سکوں۔

رانی بی بی نے بتایا کہ ’میرے پاس ابھی کچھ نہیں ہے‘۔

رانی بی بی اپنی زندگی کو دوبارہ بنانے کی کوشش کررہی ہیں، انہیں گھریلو ملازمہ کی حیثیت سے نوکری مل گئی ہیں اور ان کی 4 ماہ قبل دوبارہ شادی ہوگئی۔


یہ خبر 17 اپریل 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں