مقبوضہ کشمیر میں خاتون صحافی کے خلاف غداری کا مقدمہ درج

اپ ڈیٹ 20 اپريل 2020
مسرت زہرا کو فیس بک پر تصاویر جاری کرنے پر مقدمے میں نامزد کردیا گیا—فوتؤ:بشکریہ الجزیرہ
مسرت زہرا کو فیس بک پر تصاویر جاری کرنے پر مقدمے میں نامزد کردیا گیا—فوتؤ:بشکریہ الجزیرہ

مقبوضہ جموں اور کشمیر میں پولیس نے خاتون صحافی کو غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد کے حوالے سے موجود قانون (یو اے پی اے) کے تحت گرفتار کرلیا۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق 26 سالہ مسرت زہرا کو سوشل میڈیا میں ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے۔

سری نگر کی رہائشی فوٹو جرنلسٹ خاتون پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے فیس بک پر نوجوانوں کو ریاست مخالف جرائم کے لیے اکسانے کا مواد پوسٹ کیا۔

مزید پڑھیں:پلوامہ واقعے کے بعد بھارت میں صحافی سمیت کشمیری نوجوانوں پر حملے

سری نگر میں سائبر کرائم پولیس اسٹیشن سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ انہیں مستند ذرائع سے خبر ملی تھی مسرت زہرا فیس بک پر مجرمانہ انداز میں ریاست مخالف پوسٹس کررہی ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ 'فیس بک کے صارفین کا بھی ماننا ہے کہ اپ لوڈ کی گئیں تصاویر نقص امن کا باعث بن سکتی ہیں اور صحافی ریاست مخالف سرگرمیوں کی حمایت بھی کررہی ہیں'۔

بھارتی پولیس نے خاتون صحافی کی فیس بک پوسٹس کے حوالے سے کہا کہ ان کی پوسٹس سے 'قانون نافذ کرنے والے اداروں کا تشخص مسخ ہورہا ہے، اس کے علاوہ ملک کے خلاف اثرات پڑرہے ہیں'۔

پولیس نے مزید کہا کہ فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) ہفتے کو درج کی گئی تھی اور تفتیش جاری ہے جبکہ صحافی کو منگل کو طلب کرلیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ متنازع قانون یواے پی اے حکومت کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی بھی فرد کو دہشت گرد قرار دے اور نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی اس طرح کے کیسز کی تفتیش کرسکتی ہے۔

اس قانون کے زمرے میں آنے والے فرد کو زیادہ سے زیادہ 7 سال یا اس سے کم سزا ہوسکتی ہے۔

مسرت زہرا نے الجزیرہ کو اس حوالے سے بتایا کہ پولیس اور حکومت مقبوضہ کشمیر میں صحافیوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کررہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پولیس نے کہیں بھی یہ ظاہر نہیں کیا کہ میں صحافی ہوں، وہ کہہ رہے ہیں میں فیس بک صارف ہوں'۔

یہ بھی پڑھیں:’بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں میڈیا کو خاموش کروا رہی ہے‘

مسرت زہرا نے کہا کہ ان کے خلاف مقدمہ گزشتہ برسوں کے دوران شائع ہونے والے کام کو فیس بک پر دوبارہ پوسٹ کرنے پر درج کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'میں اپنی پرانی تصاویر کو جاری کرتی رہتی ہوں جو پہلے ہی بھارتی اور دنیا کے مختلف اداروں یا سوشل میڈیا میں شائع ہوچکی ہوتی ہیں جس پر میرے خلاف مقدمہ بنایا جارہا ہے'۔

رپورٹ کے مطابق مسرت زہرا کی کھینچی ہوئی تصاویر واشنگٹن پوسٹ، دی نیو ہیومنیٹیرین، ٹی آر ٹی ورلڈ، الجزیرہ، دی کاراوان اور دیگر اخبارات اور سوشل میڈیا میں شائع ہوتی ہیں۔

دوسری جانب مقبوضہ کشمیر کے صحافیوں نے بھی سخت ردعمل دیتے ہوئے بھارتی پولیس کے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔

کشمیر پریس کلب کی جانب سے جاری بیان میں خطے کے صحافیوں پر لگنے والے الزامات کی مذمت کی گئی اور بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ سے مداخلت کا مطالبہ کیا گیا۔

مزید پڑھیں:صحافت کا عالمی ایوارڈ مقبوضہ کشمیر کی کوریج کرنے والے صحافی کے نام

بیان میں کہا گیا ہے کہ 'یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ جب دنیا وبا میں جکڑی ہوئی ہے، جب ہمیں کووڈ-19 کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے تو ایسے میں پولیس نے صحافیوں کے خلاف مقدمات بنانے اور انہیں ہراساں کرنا شروع کردیا ہے'۔

مقبوضہ کشمیر کے صحافیوں نے بیان میں کہا کہ 'کشمیر کے صحافیوں کے لیے یہ ناقابل قبول ہے کیونکہ کشمیری صحافی اپنے حقوق کے مطابق آزادی اظہار اور تقریر کے خواہاں ہیں'۔

یاد رہے کہ بھارت کی ہندو انتہا پسند حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو 5 اگست 2019 کو باقی دنیا سے منقطع کرتے ہوئے مواصلاتی روابط بند اور نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں