’بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں میڈیا کو خاموش کروا رہی ہے‘

اپ ڈیٹ 07 ستمبر 2019
بھارتی حکومت نے نقل و حرکت پر پابندی کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ اور ٹیلی فون سروسز بھی منقطع کر رکھی ہیں —تصویر: رائٹرز
بھارتی حکومت نے نقل و حرکت پر پابندی کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ اور ٹیلی فون سروسز بھی منقطع کر رکھی ہیں —تصویر: رائٹرز

نئی دہلی: انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن کے تحت میڈیا کو بھی خاموش کروانے کی کوشش کر رہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ حقائق نئی دہلی کی جانب سے بھارت کے زیِر تسلط کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور وادی میں 5 لاکھ فوجی اہلکاروں کی موجودگی کے باوجود مزید لاکھوں فوجیوں کو بھیجنے کے تناظر میں سامنے آئے۔

رپورٹس کے مطابق رواں ہفتے کے آغاز سے رپورٹرز کی نگرانی، ان سے غیر رسمی تحقیقات کی جارہی ہیں اور بھارتی حکومت اور سیکیورٹی فورسز مخالف رپورٹس شائع کرنے پر ہراساں کر رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: لینڈلائن سروس کی بحالی کے دعوے، رابطوں میں مشکلات کی شکایات

’خاردار تاروں کے پسِ پردہ خبریں‘ کے عنوان سے جاری کردہ رپورٹ میں مقبوضہ کشمیر میں ذرائع ابلاغ کی مایوس کن اور تشویشناک تصویر سے پردہ اٹھایا گیا، جو ناقابلِ یقین مشکلات کے خلاف اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

رپورٹ میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا کہ بڑے کشمیری اخبارات کے اداریوں میں غیر اہم معاملات پر بات کی جارہی ہے، مثلاً حیاتین الف (وٹامن اے) کے فوائد اور ‘کیا گرمیوں میں کیفین لینی چاہیے‘۔

ہمالیہ خطے میں میڈیا کو درپیش صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’یہ رجحان غیر جمہوری اور نقصان دہ ہے کیونکہ یہ حکومت کی آواز کو تقویت دیتا اور ان کی آوازوں کو کمزور کرتا ہے جو سچائی کی طاقت کے لیے اٹھتی ہیں‘۔

مزید پڑھیں: بھارت کا مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں سرکاری ملازمین کی بھرتیوں کا منصوبہ

نیٹ ورک آف ویمن ان میڈیا اور انڈیا اینڈ دی فری اسپیچ کلیکٹو کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ ان 2 صحافیوں نے تیار کی جنہوں نے 5 روز مقبوضہ کشمیر میں بسر کیے اور مقامی انتظامیہ اور شہریوں کے ساتھ ساتھ 70 سے زائد صحافیوں سے گفتگو کی۔

دوسری جانب بھارت کی وزارت اطلاعات و نشریات نے یہ کہتے ہوئے رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا کہ وہ ابھی رپورٹ دیکھیں گے۔

واضح رہے کہ مقبوضہ وادی میں بھارتی حکومت نے نقل و حرکت پر پابندی کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ اور ٹیلی فون سروسز بھی منقطع کر رکھی ہے، جہاں کے مردوں کے ساتھ ساتھ کم عمر نوجوان بھی 1989 سے بھارتی حکومت کے خلاف مسلح جدو جہد کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں کریک ڈاؤن کے 16روز، 152 زخمی ہسپتال منتقل

بھارتی حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ متنازع علاقے میں صورتحال معمول پر ہے اور پابندیوں میں رفتہ رفتہ نرمی کی جارہی ہے۔

اس بارے میں مختلف ذرائع کے مطابق 5 اگست سے اب تک وادی میں کم از کم 500 مظاہرے اور پتھر مارنے کے واقعات پیش آچکے ہیں اور 4 ہزار کے قریب افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں