امریکا-طالبان معاہدے کے بعد سے افغانستان میں تشدد میں اضافہ ہوا، اقوام متحدہ

اپ ڈیٹ 28 اپريل 2020
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن نے اپنی سہ ماہی رپورٹ جاری کردی - فائل فوٹو: رائٹرز
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن نے اپنی سہ ماہی رپورٹ جاری کردی - فائل فوٹو: رائٹرز

کابل: اقوام متحدہ کی ایجنسی کا کہنا ہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان امن عمل کی راہ ہموار کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے جانے کے بعد افغانستان میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) نے اپنی سہ ماہی رپورٹ میں بتایا کہ مجموعی طور پر ابتدائی 3 ماہ میں لڑائی کے نتیجے میں ایک ہزار 293 شہری متاثر ہوئے جن میں سے 760 زخمی ہوئے جبکہ باقی ہلاک ہوئے، جس میں 152 بچے اور 60 خواتین بھی شامل ہیں۔

29 فروری کو ہونے والے اس معاہدے سے قبل افغانستان کے مقامی افراد نے نسبتاً اطمینان دیکھا تھا تاہم معاہدے پر دستخط ہوتے ہی تنازع دوبارہ شروع ہوگیا جبکہ عسکریت پسند گروہ نے رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں بھی جنگ بندی کے متعدد مطالبات کو مسترد کردیا۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں یومِ آزادی پر دھماکے، 66 افراد زخمی

یو این اے ایم اے کا کہنا تھا کہ ’اس رپورٹ میں مارچ کے دوران تشدد میں پریشان کن اضافے کا انکشاف کیا گیا ہے جبکہ امید یہ کی گئی تھی کہ افغانستان کی حکومت اور طالبان امن مذاکرات کا آغاز کریں گے اور ساتھ ہی تنازع کو ختم کرنے اور تمام افغانوں کو کورونا وائرس کے اثرات سے بچانے کی کوششوں کو ترجیح دیں گے‘۔

امدادی مشن کے مطابق حکومت مخالف قوتوں خصوصاً طالبان کی وجہ سے شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد سال 2019 کی پہلی سہ ماہی کے مقابلے میں 20 فیصد سے زیادہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہدف بنا کر قتل کرنا، پھانسی اور عام شہریوں کے اغوا میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ اس کے باوجود رواں سال کے پہلے تین ماہ میں ہلاکتوں کی تعداد 2012 کے بعد سے سب سے کم تھی، اس عرصے میں معاہدے پر دستخط ہونے تک تشدد میں کمی شامل تھی۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: کار بم دھماکے میں 7 ’شہری‘ ہلاک

مارچ میں جہاں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا وہیں اقوام متحدہ کی ایجنسی نے نوٹ کیا کہ 2020 کی پہلی سہ ماہی میں مجموعی تعداد ایک سال پہلے کے مقابلے میں 29 فیصد کم رہی، جس کی وجہ جنوری اور فروری میں تشدد میں کمی بتائی گئی جبکہ اس میں ایک ہفتہ طویل جزوی جنگ بندی بھی شامل تھی۔

خیال رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت امریکی اور دیگر غیر ملکی افواج نے جولائی 2021 تک افغانستان چھوڑنے کے عزم کا اظہار کیا تھا جس کے بدلے میں طالبان نے انہیں سیکیورٹی کی متعدد ضمانتیں دی تھیں اور حکومت سے مذاکرات کرنے کا کہا تھا۔

تاہم مارچ میں لڑائی میں شدت اس وقت پیدا ہوگئی جب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان متعدد امور پر اختلافات پیدا ہوگئے تھے جس سے دونوں کے مابین مذاکرات کا آغاز نہ ہوسکا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں