ریپ کا مجرم


سپاہی کے زوردار تھپڑ سے پرویز منہ کے بل زمین پر جاگرا۔ کمر پکڑ کر کراہتے ہوئے کھڑا ہی ہورہا تھا کہ سپاہی نے ڈنڈا مارنے کے لیے اٹھایا مگر اس بار پرویز نے خود کو بچالیا۔

پرویز منڈیر پر بیٹھا اونگ رہا تھا جبکہ اس کی بیرک کے دیگر قیدی کام میں مصروف تھے۔

ایک سال سے اس کا یہی معمول تھا، رات کو اسے علینہ سونے نہیں دیتی اور دن میں سپاہی۔۔۔

7 سال کی علینہ جسے اس نے اپنی ہوس کا نشانہ بناکر گٹر میں پھینک دیا تھا۔

پرویز نے ایک سال کے دوران ‘توبہ‘ اور ’معافی‘ لکھ لکھ کر لاک اپ کی دیواریں کالی کردیں مگر اس کے گناہ کی سیاہی اسے سونے نہیں دیتی تھی۔

پورے ایک سال بعد آج سپاہی نے پرویز کو پکارا کہ ’تم سے ملنے کوئی آیا ہے‘۔

پرویز سوچ میں پڑگیا کون آیا ہوگا؟ دنیا میں صرف اس کی بیوی ہی تھی اور وہ بھی اسے چھوڑ کر جاچکی تھی۔ وہ اپنے ملاقاتی کا تصور ذہن میں لیے کمرے میں داخل ہوا۔

سامنے اس کی بیوی ہی کھڑی تھی، لیکن اس کے ہاتھ میں کیا تھا؟

وہ بیوی کے قریب پہنچا، دیکھا تو بچہ تھا، اس نے بیوی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ بیوی نے کہا ہماری بیٹی ہوئی ہے، علینہ نام رکھا ہے میں نے۔


نیکی کا ثمر


پورے 3 ماہ بعد اپنے گھر جانے کا موقع ملا تھا، اور وہ بھی صرف 2 دن کے لیے۔ کراچی میں جون کی تپتی دھوپ میں فیکٹری کے دروازے سے باہر نکلا اور حیدرآباد جانے والی بسوں کے اڈے پر پہنچا، ٹکٹ لیا اور بس میں بیٹھ گیا۔

لیکن مجھے اس بات پر حیرت ہوئی کہ 15 منٹ پیدل چلنے اور بنا اے سی والی بس میں بیٹھنے کے باوجود مجھے گرمی کا احساس نہیں ہورہا تھا۔

بس چل پڑی اور میرے برابر میں بیٹھے نوجوان لڑکے نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے جیب سے رومال نکالا اور چہرے پر سے پسینہ صاف کرنے لگا۔

3 گھنٹے کیسے گزرے مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔

حیدرآباد پہنچ کر بچوں کے لیے کچھ پھل اور سامان خریدنے کے لیے قریبی بازار چلاگیا۔

بازار میں جسے دیکھو گرمی کا رونا، گرمی سے بے حال۔

سامان خریدا اور پیدل ہی گھر کی طرف چل پڑا۔ گھر 3 کلومیٹر کے فاصلے پر ہی تو تھا۔

گلی میں داخل ہوا ہی تھا کہ اپنے گھر کے سامنے ہجوم دیکھا، گھبرا گیا، تیز قدموں سے ہجوم کو چیرتے ہوئے گھر کے دروازے تک پہنچا تو دیکھا کہ میری بیوی اور 10 سالہ بیٹی ہینڈ پمپ سے پانی نکال کر محلے والوں کے برتن بھر رہی تھیں۔

ٹھنڈی ہوا کا تیز جھونکا مجھے چھوتا ہوا گزر گیا۔


شادی اور جنازہ


میں نے عائزہ کو پورے 10 سال بعد دیکھا تھا۔ پہلے تو اسے پہچان ہی نہیں سکا لیکن جب اس نے مجھے سلام کیا تو پہچانا۔ گورا چٹا رنگ، غزال آنکھوں اور دراز قد کی مالک عائزہ کو جیسے کسی نے نچوڑ لیا تھا۔

میں اسے اپنے دفتر لے آیا، کرسی پر بیٹھتے ہی میں نے عائزہ پر سوالوں کی بوچھاڑ کردی۔ عائزہ چُپ چاپ سنتی رہی مگر ایک جواب نہ دیا۔ بس ہسپتال آنے کی وجہ بتائی کہ اس کا آپریشن ہے، پیٹ میں رسولی کا۔

مجھ سے صرف ایک بات کہی تم ڈاکٹر بن ہی گئے آخر۔ پھر کھڑی ہوئی اپنے لاغر جسم کو تقریباً گھسیٹتے ہوئے چلی گئی۔

اور میں ماضی میں گم ہوگیا۔

ہمارے کالج کی جان تھی عائزہ، اور عائزہ کی جان تھا جنید۔ دونوں ایک دوسرے سے مثالی محبت کرتے تھے۔ جنید لمبا چوڑا وجیہہ شخصیت کا مالک مگر ہر وقت کسی نہ کسی سے جھگڑتا رہتا۔ عائزہ کو اگر کوئی نظر بھر کے دیکھ لے تو اس کی شامت آجاتی۔ روزانہ ہی اس کے ہاتھوں کسی نہ کسی لڑکے کی پٹائی ہوتی۔

عائزہ نے ایک بار جنید کے پُرتشدد رویے پر مجھ سے بھی بات کی۔ وہ اس حوالے سے فکر مند تھی لیکن خود ہی خود کو سمجھاتے ہوئے کہنے لگی کہ یہ رویہ میری وجہ سے ہے، شادی کے بعد ٹھیک ہوجائے گا۔

تقریباً ایک ہفتے بعد میں نے آج پھر عائزہ کو دیکھا، اسے لنچ کی پیش کش کی جو اس نے قبول کرلی۔ ہم ہسپتال کے کیفے ٹیریا میں بیٹھ گئے۔

اس بار میں نے صرف ایک سوال کیا، ’جنید کیسا ہے؟‘

عائزہ یہ سوال سنتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ کچھ دیر بعد جب اس نے خود پر قابو پایا تو مجھے آپ بیتی سنائی۔

جنید نے شادی کے بعد اپنے مارنے پیٹنے کی عادت کو عائزہ تک محدود کردیا تھا۔

کوئی کام نہ کاج، دن رات نشے میں دھت، صبح شام گالی گلوچ، مار دھاڑ۔ جنید کا آتشی رویہ عائزہ کو خاکستر کرچکا تھا۔ میں نے اسے دلاسہ دیا اور جنید کو چھوڑنے کو کہا۔

عائزہ نے اداس نظروں سے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا، بریانی کی پلیٹ پر فوکس کیا اور پوری پلیٹ کو ایک منٹ میں صاف کرگئی۔

آج عائزہ کا آپریشن تھا، میں ہسپتال کے باہر ہی اس کا انتظار کررہا تھا۔ عائزہ پیدل سڑک پار کرتی ہوئی میری طرف آئی۔ اس کی چال نارمل لگ رہی تھی۔ اسے دیکھ کر مجھے خوشنما حیرت ہوئی۔ اس نے گہرے سرخ رنگ کی لپ اسٹک لگا رکھی تھی۔ چہرے پر اطمینان تھا، آنکھوں میں چمک تھی، ہاتھوں میں چوڑیاں تھیں، ایسا محسوس ہوا جیسے 10 سال پہلے والی عائزہ سامنے آکھڑی ہوئی۔

میں نے اس تبدیلی کی وجہ پوچھنے کے لیے جیسے ہی بولنے کی کوشش کی تو عائزہ نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ بولی، کچھ نہ پوچھنا، آج میری شادی ہوگئی ہے، جنید کا جنازہ اٹھوا کر آرہی ہوں۔

تبصرے (2) بند ہیں

sami ansari May 01, 2020 06:50pm
فرحان محمدخان کی تحریر بہت خوب ہے ۔۔
Shoaib Jamil May 01, 2020 11:48pm
Bhai, buhut hi aala. Buhut acha likte hain aap