سندھ: سرکاری گوداموں سے 5 ارب 35 کروڑ روپے کی گندم غائب ہونے کا انکشاف

اپ ڈیٹ 02 مئ 2020
اس خورد برد میں محکمہ خوراک کے افسران اور دیگر افراد ملوث پائے گئے—تصویر:ٹوئٹر
اس خورد برد میں محکمہ خوراک کے افسران اور دیگر افراد ملوث پائے گئے—تصویر:ٹوئٹر

قومی احتساب بیورو(نیب) نے انکشاف کیا ہے کہ سندھ کے سرکاری گوداموں سے 5 ارب 35 کروڑ 50 لاکھ روپے مالیت کی ایک لاکھ 64 ہزار 797 میٹرک ٹن غائب ہے۔

نیب کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق نیب سکھر نے لاڑکانہ، بینظیر آباد (نواب شاہ) اور سکھر ڈویژن کے 9 اضلاع میں 15 ارب 85 کروڑ روپے مالیت کی سرکاری گندم میں خورد برد اور چوری کو پکڑنے کے لیے 9 مختلف انکوائری شروع کی تھیں۔

انکوائری کے لیے علیحدہ علیحدہ ٹیموں نے جوڈیشل مجسٹریٹ کی نگرانی میں ان 9 اضلاع کے سرکاری گوداموں پر چھاپے مارے۔

یہ بھی پڑھیں: گندم کی خریداری میں کمی آٹے کے بحران کی وجہ بنی، رپورٹ

نیب کے مطابق چھاپوں کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ 5 ارب 35 کروڑ 50 لاکھ روپے مالیت کی ایک لاکھ 64 ہزار 797 میٹرک ٹن گندم غائب ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ گندم غائب ہونے کے معاملے میں محکمہ خوراک کے افسران سمیت دیگر ملزمان نے اعتراف جرم کرتے ہوئے پلی بارگین کے ذریعے 2 ارب 11 کروڑ 20 لاکھ روپے واپس کیے۔

نیب نے بتایا کہ سکھر اور خیرپور کے محکمہ خوراک کے افسران اور 4 فلور مل مالکان کے خلاف ادھار پر لی گئی سرکاری گندم کی رقم 6 ماہ میں واپس نہ کرنے پر انکوائری کا آغاز ہوا تو 4 فلور مل مالکان نے 8 ارب 12 کروڑ 60 لاکھ روپے واپس کیے۔

نیب کے مطابق مختلف انکوائری کے دوران یہ انکشاف بھی ہوا کہ سکھر، لاڑکانہ اور بینظیر آباد ڈویژن کے 9 اضلاع سے کراچی بھجوائی گئی 74 کروڑ 56 لاکھ 80 ہزار روپے مالیت کی 22 ہزار میٹرک ٹن سرکاری گندم وہاں پہنچی ہی نہیں۔

مزید پڑھیں: سندھ نے پنجاب کیلئے گندم کی منتقلی روک دی

انسداد بدعنوانی ادارے کا کہنا تھا کہ اس خورد برد میں محکمہ خوراک کے افسران اور دیگر افراد ملوث پائے گئے۔

مزید یہ کہ محکمہ خوراک میں بڑے پیمانے پر خورد برد اور چوری کے خلاف نیب کی جانب سے احتساب عدالت سکھر میں 4 ریفرنس دائر کیے جاچکے ہیں جبکہ مزید ریفرنس بھی درج کیے جائیں گے۔

خیال رہے کہ ملک میں چند ماہ قبل آٹے اور گندم کا بحران پیدا ہوگیا تھا اور اس کے نتیجے میں قیمتوں میں اضافہ ہوگیا تھا جس کی انکوائری کرنے والی کمیٹی نے اس بحران کی وجہ خریداری کی خراب صورتحال کو قرار دیا تھا۔

کمیٹی نے کہاتھا کہ سرکاری خریداری کے طے شدہ ہدف کے مقابلے میں 35 فیصد (25 لاکھ ٹن) کمی دیکھنے میں آئی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ تھا کہ سندھ میں گندم کی خریداری صفر رہی جبکہ اس کا ہدف 10 لاکھ ٹن تھا اسی طرح پنجاب نے 33 لاکھ 15 ہزار ٹن گندم خریدی جبکہ اس کی ضرورت و ہدف 40 لاکھ ٹن تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں آٹے کا شدید بحران، ارباب اختیار ایک دوسرے پر ذمے داری ڈالنے لگے

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ پاسکو مجموعی ضرورت کی 40 فیصد گندم کی خریداری نہیں کرسکی اور وزارت خوراک اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کو مئی اور جون 2019 میں بتاتی رہی کہ پاسکو نے مقررہ ہدف کو پورا کرلیا۔

صرف یہی نہیں وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ (ایم این ایس ایف اینڈ آر) جو پاسکو کی نگرانی کرتی ہے، نے حکومت کو یہ سفارش بھی کی کہ گندم کے ذخیرے کی صورتحال مناسب ہے اور برآمدات کی اجازت دی جانی چاہیے۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پچھلے سال کے مقابلے میں کم اسٹاک، رواں سال میں کم فصل کی پیداوار اور خریداری کی ناقص کوششوں کی وجہ سے متعلقہ وزارت صورتحال کو سمجھنے میں ناکام رہی اور وفاقی حکومت کو سفارشات معمول کے مطابق پیش کرتی تھی جو گمراہ کن تھیں۔

نکوائری کے مطابق اس کے نتیجے میں خریداری کی کوشش 20 دن تاخیر سے شروع ہوئی اور محکمہ خوراک ’فلور ملز پر قابو پانے میں ناکام رہا جس نے منافع بخش مہم کو تقویت بخشی کیونکہ انہوں نے محسوس کیا تھا کہ حکومت کی گندم کی طلب اور رسد کے لیے تیاری نہیں ہے‘۔

رپورٹ کے مطابق گندم کی چوری میں اضافہ ہوا اور نجی اور سرکاری سطح پر بغیر کسی حساب کتاب کے گندم کی اسٹاک ہونے لگی اور حکومت گندم کی فراہمی پر اپنا کنٹرول کھو بیٹھی۔

تبصرے (0) بند ہیں