جہانگیر ترین تحریک انصاف کے خلاف کبھی نہیں ہوں گے، زلفی بخاری

اپ ڈیٹ 04 مئ 2020
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے تارکین وطن پاکستانی زلفی بخاری بی بی سی کو انٹرویو دے رہے ہیں - فوٹو بشکریہ بی بی سی
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے تارکین وطن پاکستانی زلفی بخاری بی بی سی کو انٹرویو دے رہے ہیں - فوٹو بشکریہ بی بی سی

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے تارکین وطن پاکستانی زلفی بخاری کا کہنا ہے کہ چینی اور آٹے کے بحران کی تحقیقات کا نتیجہ کچھ بھی نکل آئے جہانگیر ترین تحریک انصاف کی مخالفت نہیں کریں گے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کو دیے گئے انٹرویو میں زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جہانگیر ترین نے پی ٹی آئی کے لیے بہت سی خدمات دی ہیں اور 2018 کے انتخابات کے بعد حکومت بنانے کے لیے چند لوگوں کو جہانگیر ترین ہی لے کر آئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جن لوگوں جہانگیر ترین لے کر آئے وہ پارٹی میں عمران خان کے لیے آئے تھے، جہانگیر ترین یا زلفی بخاری کے لیے نہیں، یہ کردار جہانگیر ترین کو اس لیے ملا کیونکہ وە وزیراعظم کے قریب تھے، ان کی وجہ سے لوگوں نے پی ٹی آئی کی حکومت قائم کرنے میں مدد کی تاہم جہانگیر ترین کی جگہ یہ کردار کسی اور کو بھی مل سکتا تھا‘۔

انہوں نے واضح کیا کہ ’ایسا بالکل نہیں ہے کہ وزیراعظم مکمل طور پر جہانگیر ترین ان پر انحصار کرتے ہیں‘۔

مزید پڑھیں: آٹا، چینی اور آئی پی پیز کے معاملے کی تحقیقات فائلوں کی نذر نہیں ہوگی، شبلی فراز

انٹرویو میں انہوں نے جہانگیر ترین کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف محاذ آرائی کا ارادە رکھنے کے حوالے سے زیر گردش خبروں کی تردید بھی ک۔

ان کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین پارٹی کے سینئر، پرانے اور اہم رہنما ہیں اور ان کا وزیر اعظم کے ساتھ گہرا اور پرانا تعلق ہے۔

زلفی بخاری نے چینی اور آٹا بحران پر ایف آئی اے کی رپورٹ کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جس طرح کی باتیں لوگ کر رہے ہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے، وزیر اعظم عمران خان اور جہانگیر ترین میں بہت پرانا اور مضبوط تعلق ہے اور میرے نزدیک اس بات میں کوئی حقیقت نہیں کہ وہ اپنی علیحدہ پارٹی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، انہوں نے پہلے بھی پی ٹی آئی کی خدمت کی ہے اور یقین ہے کہ آئندہ بھی کریں گے‘۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان کوئی اختلافات نہیں ہیں، اور دونوں کے درمیان ایک قریبی تعلق ہے اور ’ابهی تو ابتدائی انکوائری رپورٹ آئی ہے جب تک مکمل کیس کهل کر سامنے نہیں آئے گا وزیر اعظم جہانگیر ترین کے متعلق کوئی غلط فہمی قائم نہیں کریں گے‘۔

انہوں نے وفاقی کابینہ میں اختلافات کی خبروں کی بھی تردید کی اور کہا کہ ’میڈیا غلط انداز میں خبروں کو پیش کرتا ہے دو لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے آپس میں اختلافات ہیں اور وہ دونوں ہی اکٹھے بیٹھ کر ان خبروں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں تو میرے خیال میں میڈیا کو پہلے سے زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے‘۔

واضح رہے کہ ملک میں چینی اور گندم کی مصنوعی قلت اور ان کی قیمتوں میں اچانک اضافے کے معاملے پر فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کی دو الگ الگ انکوائری رپورٹس کے اجرا کے بعد حکومت نے اپریل کے پہلے ہفتے میں ہی ایس ایف سی تشکیل دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم نے آٹا اور چینی بحران کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کروا دی

شوگر سے متعلق انکوائری رپورٹ میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق سیکریٹری جنرل اور وزیر اعظم کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین سمیت دیگر بڑی شخصیات کے نام سامنے آئے تھے جنہوں نے اس بحران سے مبینہ طور پر فائدہ اٹھایا تھا۔

اس رپورٹ کے اجرا کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے مطالبہ کیا تھا کہ وزیر اعظم ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کریں جنہیں ایف آئی اے کمیٹی نے اس بحران کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔

دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان نے کارروائی کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا لیکن انہوں نے کہا تھا کہ وہ کمیشن کی جانب سے فرانزک آڈٹ رپورٹ موصول ہونے کے بعد کارروائی کریں گے۔

’عرب ممالک سے پاکستانیوں کی واپسی کیلئے کوئی دباؤ نہیں تھا‘

معاونِ خصوصی کا کہنا تھا کہ حکومت کوشش کر رہی ہے کہ کورونا کی وبا پھیلنے کے بعد بیرونِ ملک کام کرنے والے جن پاکستانیوں کو چھٹیوں پر بھیج دیا گیا تھا، صورتحال میں بہتری آنے کے بعد ان کی نوکریوں پر واپسی کو یقینی بنایا جائے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان پر خلیجی ممالک کی جانب سے کوئی دباؤ نہیں تها کہ وہ اپنے شہریوں کو واپس بلائے اور کہا کہ ’صرف ان افراد کو واپس بلانے کا کہا گیا جن کی نوکریاں ختم ہو گئی ہیں تاہم مزدور طبقے کی واپسی ہماری پہلی ترجیح ہے جبکہ دیگر کئی شہری خود اپنی مرضی سے یہ لاک ڈاؤن کا وقت پاکستان میں گزارنا چاہتے ہیں‘۔

خیال رہے کہ متحدہ عرب امارات میں کورونا وائرس کے باعث درپیش صورتحال کی وجہ سے وطن واپسی کے خواہشمند 60 ہزار پاکستانیوں نے دبئی کے قونصل خانے میں اپنا اندراج کروایا۔

قونصل جنرل احمد امجد علی نے بتایا تھا کہ ڈھائی ہزار سے زائد پاکستانیوں کو خصوصی پروازوں کے ذریعے بھجوایا جاچکا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں