ٹرمپ اور سعودی فرمانروا کا دفاعی شراکت داری جاری رکھنے پر اتفاق

اپ ڈیٹ 10 مئ 2020
شاہ سلمان اور ڈونلڈ ٹرمپ نے علاقائی اور دوطرفہ معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے تعاون جاری رکھنے پر اتفاق کیا— فائل فوٹو
شاہ سلمان اور ڈونلڈ ٹرمپ نے علاقائی اور دوطرفہ معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے تعاون جاری رکھنے پر اتفاق کیا— فائل فوٹو

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے فون پر گفتگو کر کے دونوں ملکوں کے درمیان مضبوط دفاعی شراکت داری جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔

دونوں رہنماؤں کے درمیان گفتگو جمعہ کو ایک ایسے موقع پر ہوئی جب تیل کے عالمی بحران کے سبب امریکا اور سعودی عرب کے درمیان تناؤ کی خبریں زیر گردش ہیں اور امریکا نے سعودی عرب سے اپنی افواج کے انخلا کی بھی دھمکی دی تھی۔

گزشتہ ہفتے خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' نے رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ 2 اپریل کو ٹرمپ نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم (اوپیک) تیل کی پیداوار میں کمی نہیں کرتی، اس وقت تک وہ سعودی عرب سے امریکی افواج کے انخلا کے حوالے سے قانون سازی روکنے میں بے اختیار ہوں گے۔

اس سے قبل کبھی بھی اس 75 سالہ اسٹریٹیجک اتحاد کے خاتمے کی دھمکی کے حوالے سے کوئی بھی خبر رپورٹ نہیں ہوئی اور اس کا بنیادی مقصد امریکا کی جانب سے تیل کی پیداوار کے تاریخی معاہدے کے حوالے سے دباؤ ڈالنا ہے جہاں کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں تیل کی مانگ میں کمی ہوئی ہے اور اس تمام پیشرفت کو امریکا کی سفارتی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔

اس حوالے سے بریفنگ میں شریک امریکی انتظامیہ کے ذرائع کے مطابق ٹرمپ نے سعودی ولی عہد کو یہ پیغام تیل کی پیداوار میں کمی کے اعلان سے 10 دن قبل دیا تھا اور اس دھمکی کا محمد بن سلمان پر اس حد تک اثر ہوا تھا کہ انہوں نے کمرے میں موجود تمام افراد کو باہر نکلنے کا حکم دیا تھا تاکہ وہ رازداری کے ساتھ گفتگو کو جاری رکھ سکیں۔

مزید پڑھیں: تیل بحران: ایک دوسرے کے لیے قبر کھودنے والے خود اسی میں گر گئے؟

ٹرمپ نے گزشتہ ماہ سعودی عرب سے تیل کی پیداوار کم کرنے کی درخواست کی تھی کیونکہ کورونا وائرس کے بحران کے سبب سعودی عرب کی جانب سے پیدوار بڑھانے کے بعد امریکا میں تیل کی پیداوار کرنے والوں پر شدید دباؤ بڑھ گیا تھا۔

ہفتہ کو وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں ترجمان جُڈ ڈیر نے بتایا کہ دونوں رہنماؤں نے عالمی توانائی کی مارکیٹوں کے استحکام کی اہمیت پر اتفاق کیا اور سعودی عرب اور امریکا کے درمیان مضبوط دفاعی شراکت داری جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا گیا۔

بیان میں بتایا گیا کہ امریکی صدر اور شہزادہ سلمان نے بالترتیب جی7 اور جی20 کے رہنماؤں کی حیثیت سے دیگر علاقائی اور دوطرفہ معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے تعاون جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔

یہ بھی پڑھیں: تیل کی پیداوار کم نہ کی تو سعودی عرب سے افواج واپس بلا لیں گے، ٹرمپ کی دھمکی

بیان میں پیٹریاٹ میزائل کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا اور وائٹ ہاؤس نے اس معاملے پر مزید وضاحت نہیں دی۔

امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سعودی عرب کی حفاظت کے لیے نصب پیٹریاٹ میزائل ہٹانے کے حوالے سے زیر گردش خبروں کی تصدیق کی۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ امریکا، سعودی عرب سے تعاون میں کمی کردے گا اور اس کا مقصد تیل کے معاملے پر سعودی عرب پر دباؤ ڈالنا بھی نہیں ہے۔

انہوں نے مزید وضاحت دیتے ہوئے کہاکہ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ایران اب خطرہ نہیں رہا۔

انہوں نے کہا کہ پیٹریاٹ میزائل کچھ عرصے سے وہاں نصب ہیں اور امریکی فوجی دستوں کو واپس بلانے کی ضرورت ہے، یہ فوجیوں میں ردوبدل کا معمول کا طریقہ کار ہے۔

سعودی عرب نے مذکورہ فون کال کے حوالے سے بیان میں کہا کہ ٹرمپ نے خطے میں اپنے اتحادیوں کی سیکیورٹی اور مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا ایران تنازع: عالمی سطح پر تیل اور سونے کی قیمتوں میں اضافہ

بیان میں کہا گیا کہ امریکی صدر نے یمن کے تنازع کے سیاسی حل کے لیے کی جانے والی کوششوں میں بھی مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

واضح رہے کہ 2015 میں حوثی باغیوں کی جانب سے دارالحکومت صنعا سمیت ملک کے اکثر شمالی حصے پر قبضے کے بعد سعودی عرب کی سربراہی میں عرب اتحاد نے یمن میں مداخلت کی تھی۔

مغربی قوتوں کی مکمل سپورٹ کے حامل اس اتحاد کی مداخلت کا مقصد عالمی سطح پر تسلیم شدہ صدر منصور ہادی کی حکومت کو بحال کرنا ہے البتہ کئی سال سے جاری اس خانہ جنگی میں ہزاروں افراد ہلاک جبکہ اسکول، ہسپتال اور مارکیٹیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں