وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) توقع کے مطابق فرائض انجام نہیں دے رہا۔

اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے کابینہ کے اجلاس کے بعد پریس بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ نیب کا قانون تبدیل ہونا چاہیے اور اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ کا فورم موجود ہے جہاں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی نمائندگی ہے۔

شبلی فراز نے کہا کہ ’ٹی وی شوز اور پریس کے ذریعے نیب سے متعلق بیان بازی مناسب رویہ نہیں ہے‘۔

واضح رہے کہ 2 مئی کو وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) چاہتی ہیں کہ نیب قوانین بدل دیے جائیں پھر چاہے 20ویں ترمیم بھی تبدیل کروالی جائے۔

اپوزیشن جماعتیں کا ماننا ہے کہ نیب قوانین سیاسی حریفوں کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے جس میں تبدیلی کی گنجائش ہے۔

انتخابی اصلاحات پر مشتمل رپورٹ منظور

وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے بتایا کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے انتخابی اصلاحات سے متعلق تجویز کو سراہتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ان کے دور حکومت میں پہلی مرتبہ انتخابی اصلاحات کے ذریعے تمام انتخابی سقم کو دور کیا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ انتخابی اصلاحات اور بیرون ملک میں مقیم پاکستانیوں کی بائیومیٹرک تصدیق سے متعلق امور زیر بحث آئے۔

مزید پڑھیں: کابینہ کے 4 گھنٹے کے اجلاس میں 3 گھنٹے نواز شریف پر بات ہوتی ہے، احسن اقبال

انہوں نے مزید بتایا کہ انتخابات پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے انتخابی اصلاحات سے متعلق پیش کردہ رپورٹ منظور کی گئی جس میں انتخابی امیدواروں کی جانب سے 4 ایجنٹ مقرر کرنا، ووٹوں کی گنتی کے دوران مقرر کردہ نمائندوں کی موجودگی، انتخابات کے اخراجات، نتیجے کی بروقت ترسیل و اعلان، سیاسی پارٹیوں کو انتخابی مہم کے لیے مناسب وقت فراہم کرنا سمیت دیگر تجاوز شامل ہیں۔

’عوام نے لاک ڈاؤن میں نرمی کے احکامات ہوا میں اڑا دیے‘

علاوہ ازیں انہوں پریس بریفنگ میں کورونا وائرس سے متعلق وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کی جائزہ رپورٹ کا تذکرہ کیا۔

شبلی فراز نے بتایا کہ اسد عمر نے کورونا وائرس کی صورتحال پر جائزہ رپورٹ پیش کی اور آگاہ کیا کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کے نتیجے میں لوگوں نے سماجی فصلے اور ایس او پیز سے متعلق احکامات کو ہوا میں اڑا دیا۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ محدود پیمانے پر معاشی سرگرمیوں کو شروع کرنے کا مقصد یومیہ اجرت کمانے والے طبقے کو سہولت فراہم کرنا ہے۔

مزیدپڑھیں: وفاقی کابینہ کا ہنگامی اجلاس، آرمی ایکٹ میں ترامیم منظور

انہوں نے کہا کہ ملک اس بات کا متحمل نہیں کہ کورونا وائرس سے متاثرہ بڑی تعداد کو طبی سہولیات فراہم کی جا سکیں اس لیے ہر شخص کی انفرادی ذمہ داری ہے کہ وہ سماجی فاصلے کو یقینی بنائے اور ایس او پیز پر عمل کرے۔

اپنی پریس بریفنگ کے دوران انہوں نے کہا کہ دیگر چینلجز کے مقابلے میں کورونا کی وبا ایک بڑا چینلج ہے اور اس وقت ہم نے ایک رسک لیا ہے اس لیے لوگ احتیاط برتیں۔

شبلی فراز نے کہا کہ ’ہمارا اقدام نیک نیتی پر مبنی ہے کیونکہ کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ کورونا وائرس کے خاتمے سے متعلق کچھ نہیں معلوم اس لیے کسی بھی ریاست کے اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ مہینوں یا برسوں لوگوں کو مختلف پروگرام اور پیکجز کے ذریعے مالی سہولیات فراہم کرتی رہے۔

مزید پڑھیں: وفاقی کابینہ کا ایک ماہ کی تنخواہ کورونا ریلیف فنڈ میں دینے کا اعلان

وزیر اطلاعات نے کہا کہ ’ہم نے اسی لیے معاشی سرگرمیوں کا سلسلہ شروع کیا ہے‘۔

شوگر ملز سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جہاں تک شوگر کا تعلق ہے اسے تو ہم ایمپورٹ بھی کرسکتے ہیں۔

’وزیراعظم پارلیمنٹ میں آئیں گے؟‘

وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان ضرور پارلیمنٹ میں آئیں گے لیکن سینیٹ اور قومی اسمبلی میں وہ لوگ نہیں آئے جو سب سے زیادہ واویلا کررہے تھے۔

مزید پڑھیں: پاکستان ریلوے کا 10 مئی سے ٹرین آپریشن جزوی بحال کرنے کا فیصلہ

انہوں نے سوال اٹھایا کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کیوں غائب تھے، عمران خان تو پورا ملک چلارہے ہیں، کورونا کے خلاف دن رات مصروف ہیں۔

شبلی فراز نے کہا کہ شہباز شریف کا منافقانہ رویہ عوام بڑی اچھی طرح سے پہچانتے ہیں۔

واضح رہے کہ 11 مئی کو وفاقی حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے باعث عائد بندشوں میں نرمی کے اعلان کے بعد پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جہاں اراکین نے ٹیسٹ کے بعد شرکت کی لیکن وزیر اعظم عمران خان، قائد حزب اختلاف شہباز شریف، وفاقی وزیر فواد چوہدری سمیت کئی اراکین نے اہم اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔

’کسی پارٹی کے پاس مطلوبہ تعداد ہوئی تو آئینی ترمیم ہوجائے گی‘

بجٹ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم آئین کا حصہ ہے اس لیے ایسے آئینی ترمیم کہنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم کے لیے کسی پارٹی کے پاس مطلوبہ تعداد ہے تو وہ ترمیم ہوجائے گی، اب اس کو اتنا متنازع کیوں بنایا جارہا ہے۔

واضح رہے کہ چند ماہ سے وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے درمیان 18ویں ترمیم سے متعلق کشمکش جاری ہے۔

کچھ وفاقی وزرا کی جانب سے 18 ویں آئینی ترمیم پر متنازع ریمارکس کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے صوبائی خود مختاری کے تحفظ کا عزم اور حکومت کو یہ آئینی ترمیم ختم کرنے کے لیے کسی اقدام پر خبردار کیا تھا۔

جس پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا تھا کہ 18ویں ترمیم کو کسی قسم کے خطرات لاحق نہیں اور وہ وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے۔

کپاس کی پیداوار پر اظہار تشویش

علاوہ ازیں ان کا کہنا تھا کہ کپاس کی پیداوار سے متعلق امور بھی زیر بحث آئے اور اس امر پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ کپاس کی پیداوار میں بتدریج کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

مزیدپڑھیں: کابینہ نے چینی بحران کمیٹی کو انکوائری ایکٹ کے اختیارات تفویض کر دیے

وزیر اطلاعات نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان نے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کپاس کی پیداوار پر حکمت عملی تیار کرنے پر زور دیا۔

سینیٹر شبلی فراز نے بتایا کہ گزشتہ 10 سے 15 برس سے کپاس کی پیداوار نہیں بڑھی۔

سرکاری ادارے میں بہترین افرادی قوت کیلئے کمیٹی قائم

انہوں نے بتایا کہ سرکاری اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر بہترین افرادی قوت لانے کے لیے ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی ہے جو موجودہ قواعد وضوابط میں تبدیلی سے متعلق ایک ہفتے میں اپنی سفارشات پیش کرے گی۔

انہوں نے بتایا کہ کابینہ کو آگاہ کیا گیا کہ 12 وزارتوں میں ضابطے کے خلاف تعیناتیاں کی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی کابینہ کا ہنگامی اجلاس، آرمی ایکٹ میں ترامیم منظور

وزیر اطلاعات نے کہا کہ وزیراعظم نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا اور تمام وزارتوں سے ایک ہفتے میں حتمی معلومات جمع کرنے کی ہدایت کی تاکہ دستیاب معلومات کی روشنی میں فیصلہ کیا جا سکے۔

کابینہ کے فیصلوں میں توثیق، منظوری

وزیر اطلاعات نے بتایا کہ کابینہ نے ذیلی کیمٹی برائے توانائی 4 اپریل 2020 کے اجلاس کے فیصلوں کی توثیق کی گئی۔

سینیٹر شبلی فراز نے بتایا کہ کابینہ میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کے 6 مئی 2020 کے فیصلوں کی بھی توثیق کی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ کابینہ نے نیشنل کمیشن برائے اسٹیٹس آف وومن کے ناموں کی بھی منظوری دی۔

مزیدپڑھیں: وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ای کامرس پالیسی کی منظوری

سینیٹر شبلی فراز نے بتایا کہ وفاقی کابینہ نے نیشنل انسٹیٹیوشنل فیسلیٹیشن ٹیکنالوجی کے تمام ملازمین پر لازمی سروس ایکٹ 1992 کے اطلاق کی منظوری دی جس کی مدت 6 ماہ تک ہوگی۔

علاوہ ازیں وزیر اطلاعات نے بتایا کہ کابینہ نے پاکستان بیورو آف شماریات میں نیشنل اکاؤنٹس اور ممبر مردم شماری کی تعیناتی کی بھی منظوری دی۔

انہوں نے بتایا کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے معاملات میں بے قاعدگیوں کی نشاندہی کے لیے آڈٹ کی بھی منظوری دی گئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں