irfan.husain@gmail.com
[email protected]

'پاکستان دوراہے پر آ کھڑا ہوا ہے۔'

جب اخبارات پڑھنا شروع کیے تو میرے ذہن اور ذخیرہ الفاظ میں اس جملے نے گھر کرلیا۔

مگر اس بار تو پوری دنیا دوراہے پر آن کھڑی ہے، اور میں یہاں صرف کورونا وائرس کی عالمی وبا کا ذکر نہیں کر رہا ہوں۔ دراصل ہم مختلف بحرانوں کے چوراہے پر ہیں جو ہماری زمین کے لیے تباہی کا سامان بن سکتے ہیں۔ اب چونکہ ان بحرانوں کے ذمہ دار ہم خود انسان ہی ہیں اس لیے ان پر غور و فکر کرنا ہمارا فرض بن جاتا ہے۔

دیکھیے، دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والے کورونا وائرس کے علاوہ دیگر خطرات جس بڑے پیمانے پر موجود ہیں وہ اتنے ہی زیادہ مہلک بھی ہیں۔

سب سے پہلے بات کرتے ہیں زمین کے ماحولیات کی جو بے مثل تیزی سے زہر آلود ہوتا جارہا ہے۔ برفانی تودوں کے تیزی سے پگھلنے کی وجہ سے ہمارے سمندروں کی سطح بلند ہوتی جارہی ہے اور ہزاروں میل تک پھیلی ساحلی زمینوں کے زیر آب آنے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔

چونکہ زرعی مٹی کیمیائی مادوں سے بھرچکی ہیں اس لیے ہمارے جسم زندگی کو خطرے میں ڈالنے والے زہریلے ذرات کو جذب کرنے پر مجبور ہیں۔ کئی ندیاں، چشمے اور جھیلیں زندگی کو باقی رکھنے کے قابل ہی نہیں رہیں۔ جانوروں، پرندوں، مچھلیوں اور کیڑے مکوڑوں کی کئی نسلیں معدوم ہوچکی ہیں۔ سی این این کے فرید ذکریہ کے مطابق گوشت کے شوقین امرا کی بھوک مٹانے کے لیے ہر سال قریب 80 ارب جانوروں کو مار دیا جاتا ہے۔

مرغیوں اور دیگر بدقسمت جانوروں کو اندھیری اور تنگ جگہوں پر قید رکھنے اور انہیں ہارمونز اور اینٹی باڈیز کھانے پر مجبور کرتے ہوئے ہم نہ صرف نقصاندہ کیمائی مادوں کو اپنے جسم میں داخل کرتے ہیں بلکہ ان میں موجود مرض آور جراثیم کو دیگر اقسام کے جانوروں تک منتقل کرنے میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں جن سے پھر کورونا وائرس جیسے وائرس جنم لیتے ہیں۔

ایک دوسرا ہمارا پیدا کردہ اہم مسئلہ غیر منصفانہ اور ظالم عالمی اقتصادی نظام ہے جس کے باعث معاشرے کی تباہی و بربادی کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ جیسا کہ غربا دیگر امراض کی طرح کورونا وائرس کے معاملے میں بھی سب سے زیادہ خطرے کی زد میں ہیں، لہٰذا ہم دیکھ سکتے ہیں کہ محروم طبقے میں اس نظام کے لیے نفرت کیوں بڑھتی جا رہی ہے، ایسا نظام جو انہیں غریب سے غریب تر اور ایک جھوٹی سی اقلیت کو پیسے کمانے میں مدد دیتا ہے۔

اس غیر منصفانہ تقسیم کی ایک مثال اس حقیقت سے واضح ہوجاتی ہے کہ بالا طبقے کا 0.1 فیصد حصہ 90 فیصد نچلے طبقے کے مقابلے میں 196 گنا زیادہ پیسے کماتا ہے۔ گارجین کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کے باعث برطانیہ میں مرنے والے ایک لاکھ افراد میں سے 21.4 فیصد مرد کم آمدن والی ملازمتوں سے وابستہ تھے جبکہ 5.6 مرد سفید پوش ملازمتوں سے وابستہ تھے۔

دوسری طرف پانی کی قلت ہے جو خطرناک شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے مطابق ایک ارب 10 کروڑ افراد صاف پانی تک رسائی ہی نہیں رکھتے جبکہ ہر سال 20 لاکھ افراد جن میں بڑی تعداد بچوں کی شامل ہوتی ہے، ڈائریا کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ کئی افراد ایسے ہیں جو آلودہ پانی میں پائے جانے والے بیکٹیریا کی وجہ سے نابینا ہوجاتے ہیں۔

بحرانوں کی فہرست طویل ہے لیکن یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ سارے بڑی حد تک ہمارے ہی پیدا کردہ ہیں۔ انہیں ہم نہ تو تقدیر کا کھیل کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی غیر ملکی سازش یا الہٰی سزا قرار دے سکتے ہیں۔

کارل مارکس نے 19 صدی میں ہی کہہ دیا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں میں ہی ایک تضاد موجود ہے۔ جب ممالک وسائل اور منڈیوں پر مسلسل شدت پکڑنے والی لڑائی میں مصروف ہوں اور امیر محنت کش طبقے کے بل پر امیر تر ہونے لگیں تو تنازع لازمی جنم لیتا ہے۔

بحری راستوں پر چین اور امریکا کے درمیان ہونے والی تکرار کی صورت میں یہ سب ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اب تک تو بحیرہ شرقی چین پر امریکا ہی غالب تھا لیکن ابھرتا ہوا چین اب اس اجارہ داری کو چیلنج کرنے لگا ہے۔

مشرقی بحیرہ روم میں ترکی نے قبرص اقتصادی زون میں آف شور تیل کے لیے ڈرلنگ کی کوششوں کی خاطر فرانس، مصر اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تنازع کھڑا کیا ہوا ہے۔ لیبیا میں الگ بحران برپا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں گراوٹ کی وجہ سے برآمد کنندگان کو سکڑتی منڈیوں پر غالب آنے میں شاید مشکل پیش آئے گی۔

تو اس عالمی خودکشی کی طرف تیزی سے بڑھتے قدموں کو روکنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ چونکہ یہ سارے مسائل جیسا کہ اوپر بھی بتایا گیا ہے کہ انسان کے پیدا کردہ ہیں اس لیے ان کا حل بھی ہمارے بس سے باہر نہیں ہونا چاہیے۔ مگر یہ کام کہنے میں تو آسان لگتا ہے لیکن اسے انجام دینا اتنا آسان نہیں۔ اب تک انسانوں کا یہی نعرہ رہا ہے کہ، 'صرف اپنے مفاد کی پرواہ کرو، جو پیچھے رہ گیا ہے اسے پیچھے ہی رہنے دو'۔

تاریخ گواہ ہے کہ ملکوں کے درمیان تعاون شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملا ہے اور یہ ہمیشہ سے ثانوی حیثیت کا موضوع رہا ہے۔ جب خطرہ سر پر منڈلانے لگے لگا تب جاکر شاید ہم اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا سوچیں گے۔ مثلاً پاکستان اور بھارت کو اس وقت پانی کی قلت اور آلودہ ہوا کے بڑھتے مسائل کا سامنا ہے، لہٰذا دونوں ملکوں کو آپسی تعاون کے ذریعے ان پر ضابطہ لانا چاہیے۔ مگر تعاون کے بجائے یہ 70 سال پرانے زخموں کو کُریدتے رہتے ہیں۔

چین اور امریکا کو اپنی اعلیٰ معیار کی حامل تحقیق سے متعلق سہولیات کو کورونا وائرس کی ویکسین کی تیاری کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ مگر یہ دونوں ملک ایسا کچھ کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی بے عزتی کرنے میں مصروف ہیں۔

یورپی یونین کی صورت میں ہمارے سامنے مابعد جنگ تعاون کی ایک سب سے کامیاب مثال موجود تھی لیکن برطانیہ کے اتحاد سے نکلنے کے فیصلے کے بعد اس پر بھی خطرہ منڈلانے لگا ہے۔

ماحولیاتی خرابیوں کے پیچھے سب سے بڑا ہاتھ جارحانہ مارکیٹنگ اور ضرورت سے زیادہ مصنوعات کے استعمال کا ہے۔ جب گھرانے ایک گاڑی حاصل کرلیتے ہیں تو ان میں 2 گاڑیوں کی خواہش جاگ اٹھتی ہے۔ ہر چند ماہ بعد ہمیں اپنے موبائل فون پرانے اور وقت کے موافق نہیں لگنے لگتے اور نیا خریدنے کی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے۔ ایک منصوبہ بندی کے تحت گزرتے وقت کے ساتھ چیزوں کو بے کار بنانے کے عمل کی وجہ سے جہاں فضلے کے پہاڑ کھڑے ہوجاتے ہیں وہیں انسانی خواہشات بھی بڑھ جاتی ہیں۔

اس صورتحال میں کیا کرنا چاہیے؟ اگر ہم اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں لوگوں کو یہ سمجھانا ہوگا کہ یہ مسئلہ حقیقت میں وجود رکھتا ہے اور یہ بھی سمجھایا جائے کہ اس کے زمین اور انسان پر کس قدر بدترین نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔

ہمیں آبادی کو قابو کرنے کے ساتھ ساتھ نئی نئی مصنوعات کے لیے پیدا ہونے والی بھوک پر ضابطہ لانا ہوگا اور زبردست حد تک برابری پر مبنی اقتصادی نظام کو جنم دینا ہوگا۔

اگر کورونا وائرس بھی یہ کام نہیں کرسکا تو کوئی بھی نہیں کرپائے گا۔


یہ مضمون 16 مئی 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں