انڈونیشیا کا سعودی عرب سے حج سے متعلق فیصلہ کرنے کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 21 مئ 2020
سعودی عرب میں مطاف میں عارضی طور پر طواف کو معطل کیا گیا تھا—فائل فوٹو: رائٹرز
سعودی عرب میں مطاف میں عارضی طور پر طواف کو معطل کیا گیا تھا—فائل فوٹو: رائٹرز

جکارتہ: انڈونیشیا نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا ہے وہ عالمی وبا کورونا وائرس کے تناظر میں سالانہ اسلامی عبادت حج سے متعلق اجازت دینے کا فیصلہ کرے۔

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر سے تقریباً 25 لاکھ سے زائد عازمین نے حج کی سعادت حاصل کرنے کے لیے سعودی عرب کا سفر کیا تھا۔

خیال رہے کہ حج ہر صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک مرتبہ کرنا فرض ہے۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس: اس سال حج ہوگا یا نہیں؟ لاکھوں مسلمان پریشان

تاہم رواں سال صورتحال کافی مختلف ہے کیونکہ کورونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر کو متاثر کیا ہوا ہے اور اسی وجہ سے مارچ کے مہینے میں عمرے کو معطل کردیا گیا تھا جبکہ سعودی عرب نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ کووڈ 19 کے تناظر میں عارضی طور پر اپنی تیاریوں کو مؤخر کردیں۔

تاہم سعودی حکام نے ابھی تک یہ اعلان نہیں کیا کہ آیا وہ رواں سال حج کے لیے اجازت دیں گے یا نہیں۔

واضح رہے کہ رواں سال حج جولائی کے آخر میں ہوگا۔

اس حوالے سے انڈونیشیا کی وزارت مذہبی امور کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں رمضان المبارک کے ختم ہونے سے قبل فیصلہ ہونا چاہیے۔

ترجمان وزارت مذہبی امور اومان فتح الرحمٰن کا کہنا تھا کہ 'ہم امید کرتے ہیں کہ حج ہونے یا منسوخ ہونے سے متعلق باضابطہ فیصلے کا اعلان جلد کیا جائے گا'۔

خیال رہے کہ انڈونیشیا دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے اور اس کے کم از کم 2 لاکھ 31 ہزار شہری حج کے لیے رجسٹرڈ کرواتے ہیں جو کسی بھی ملک کی جانب سے سب سے بڑی نمائندگی ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ انڈونیشیا نے سعودی سفری حکام کے ساتھ رہائش، نقل و حرکت اور دیگر معاہدوں کو روک لیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی حکومت کی پاکستان سے حج معاہدے نہ کرنے کی درخواست

انہوں نے کہا کہ ابھی تک وزارت مذہبی امور نے کوئی معاہدے پر دستخط یا سعودی عرب میں حج سروسز کے لیے بیعانہ ادا نہیں کیا۔

واضح رہے کہ حج ریاست سعودی عرب کے لیے آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے تاہم اگر عازمین حج مکہ مکرمہ کے مقدس مقامات پر جاتے ہیں تو موجودہ صورتحال میں یہ خطرے کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے۔


یہ خبر 20 مئی 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں