وزیرستان میں غیرت کے نام پر قتل کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی تشکیل

اپ ڈیٹ 20 مئ 2020
لڑکیوں کا ایک کزن اور مبینہ قاتل محمد اسلم روپوش ہوگیا ہے—فائل فوٹو:شٹر اسٹاک
لڑکیوں کا ایک کزن اور مبینہ قاتل محمد اسلم روپوش ہوگیا ہے—فائل فوٹو:شٹر اسٹاک

میرامشاہ: بنوں کے علاقائی پولیس افسر نے ایک ’قابلِ اعتراض‘ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد 2 نوجوان لڑکیوں کے غیرت کے نام پر قتل کی تحقیقات کے لیے 4 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی۔

پولیس اب تک اس کیس میں ویڈیو بنانے والے اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے والے شخص سمیت 4 ملزمان کو گرفتار کرچکی ہے۔

شمالی وزیرستان کے پولیس افسر شفیع اللہ گنڈا پور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی کریں گے جبکہ دیگر اراکین میں ڈی ایس پی شاہد عدنان، سب انسپکٹرز میر صاحب خان اور محمد نواز اور اسسٹنٹ سب انسپکٹر فرمان علی شامل تھے۔

شفیع اللہ گنڈا پور نے رپورٹرز کو بتایا کہ انہوں نے عمر ایاز کو گرفتار کیا ہے جس نے ویڈیو بنائی اور اس ویڈیو میں نظر بھی آرہا ہے جبکہ ویڈیو پوسٹ کرنے والے عمر ایاز کے دوست فدا محمد، ایک لڑکی کے والد رادول خان اور ایک لڑکی کے چچا زاد بھائی روح الدین کو گرفتار کرلیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیرستان ویڈیو اسکینڈل: ’ویڈیو بنانے والا‘ مرکزی ملزم گرفتار

انہوں نے بتایا کہ 16 اور 18 سال کی عمر کی لڑکیوں کا ایک کزن اور مبینہ قاتل محمد اسلم روپوش ہوگیا ہے جس کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پولیس نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ سے بھی رابطہ کیا ہے اور مختلف ویب سائٹ سے مذکورہ ویڈیو ہٹانے کی درخواست کی ہے۔

پولیس نے بتایا کہ مرکزی ملزم عمر ایاز شادی شدہ اور 2 بچوں کا باپ ہے اور اس کی عمر 28 سال ہے۔

پولیس افسر کا کہنا تھا کہ خاندان والے اس معاملے کو خفیہ رکھ رکھنے کی کوشش کررہے ہیں اور پولیس کے لیے یہ ایک چیلنجنگ کیس ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کسی کے بھی اہلِ خانہ نے پولیس سے رابطہ نہیں کیا لہٰذا ایف آئی آر ایس ایچ او کی مدعیت میں دائر کی گئی۔

مزید پڑھیں: وزیرستان کے گاؤں میں ویڈیو لیک ہونے پر 2 لڑکیاں'غیرت' کے نام پر قتل

ڈی پی او کا کہنا تھا کہ پولیس افسر ثنا اللہ عباسی اس کیس میں خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں اور ضلعی انتظامیہ مشتبہ قاتل کا سراغ لگانے کے لیے کراچی پولیس سے بھی رابطے میں ہے جو قتل سے قبل وہاں رہتا تھا۔

شفیع اللہ گنڈا پور کا کہنا تھا کہ 52 سیکنڈ کی ویڈیو میں نظر آنے والی تیسری خاتون مشتبہ قاتل کی بیوی ہے جسے بظاہر کوئی قابل اعتراض حرکت نہ کرنے پر اہل خانہ نے چھوڑ دیا۔

انہوں نے بتایا کہ یہ خاندان جنوبی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف ہونے والے راہِ نجات آپریشن کے بعد ہجرت کر کے شمالی وزیرستان کے گاؤں گڑیام میں آکر آباد ہوگیا تھا۔

ساتھ ہی ڈی پی او کا یہ بھی کہنا تھا کہ مقتول لڑکیوں کے اہلِ خانہ نے دعویٰ کیا تھا کہ ویڈیو ایک سال پرانی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: وزیرستان: غیرت کے نام پر لڑکیوں کے قتل میں ’ملوث‘ 2 افراد گرفتار

انہوں نے کہا ملزم عمر ایاز نے دوران تفتیش بتایا کہ اس نے یہ ویڈیو صرف اپنے دوست فدا محمد کو دی تھی جس نے اسے مشتبہ طور پر سوشل میڈیا پر وائرل کیا۔

ڈی پی او کا مزید کہنا تھا کہ معاملے کی حساسیت کی وجہ سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں تربیت یافتہ پولیس افسران موجود ہیں جو قتل کے ہر پہلو کو دیکھ رہے ہیں۔

خیال رہے کہ لڑکیوں کو 14 مئی کو قتل کیا گیا تھا جبکہ رمزک پولیس اسٹیشن میں 15 مئی کو مقدمہ درج ہوا تھا۔


یہ خبر 20 مئی 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں