او آئی سی کمیشن کی مقبوضہ کشمیر میں نئے بھارتی قانون کی مذمت

اپ ڈیٹ 20 مئ 2020
آئی پی ایچ آر سی کے مطابق بھارت مقبوضہ کشمیر کی عوام کو ان کی اپنی زمین پر اقلیت بنانا اور حق خودارادیت کو ختم  کرنا چاہتا ہے — فوٹو بشکریہ: عرب نیوز
آئی پی ایچ آر سی کے مطابق بھارت مقبوضہ کشمیر کی عوام کو ان کی اپنی زمین پر اقلیت بنانا اور حق خودارادیت کو ختم کرنا چاہتا ہے — فوٹو بشکریہ: عرب نیوز

اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے مستقل انسانی حقوق کمیشن (آئی پی ایچ آر سی) نے بھارتی حکومت کے حال ہی میں پیش کیے جانے والے 'جموں و کشمیر گرانٹ آف ڈومیسائل سرٹیفکیٹ (پروسیجر) قواعد 2020' کی شدید مذمت کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کمیشن کی طرف سے ظاہر کیے جانے والے اس سے پہلے کے خدشات حقیقی ثابت ہورہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت کی جانب سے کیے گئے سلسلہ وار اقدامات جبری طور پر آبادی میں تبدیلی کے ذریعے منظم طریقے سے مقامی آبادی پر تسلط کے نظام کو لانا ہے اور مقبوضہ کشمیر کی عوام کو ان کی اپنی زمین پر اقلیت میں ڈالنا اور ان کے حق خودارادیت کو ختم کرنا ہے۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم، او آئی سی کا ہنگامی اجلاس طلب

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کشمیری عوام کے انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے جس کی ضمانت بین الاقوامی انسانی حقوق کے متعدد معاہدوں کے تحت حاصل کی گئی تھی جس میں جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 27 اور 49 شامل ہیں‘۔

کمیشن نے کہا کہ اس سے تنازع کو مزید پیچیدہ کیا جارہا ہے جو پہلے ہی کشمیری مسلمانوں کی ہزاروں بے گناہ زندگیاں لے چکا ہے۔

کمیشن نے بھارت پر تشویش کا اظہار کیا کہ 5 اگست 2019 کے بعد سے بھارتی حکومت، اقوام متحدہ، او آئی سی اور انسانی حقوق کے دیگر اداروں کی طرف سے وسیع پیمانے پر عالمی مذمت کے باوجود مقبوضہ جموں و کشمیر میں سیاسی، معاشی اور مواصلاتی بندشوں کے ذریعے کشمیری مسلمانوں پر منظم ظلم و ستم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ساڑھے 5 لاکھ سے زائد سیکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کے باوجود بھارتی حکومت کشمیریوں کی حق خودارادیت کی جائز جدوجہد کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مسئلہ کشمیر ہمارے ایجنڈے میں سرفہرست ہے، نمائندہ او آئی سی

کمیشن نے اقوام متحدہ اور عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ بھارت پر ان باتوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے بھرپور کردار ادا کرے۔

الف) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور او آئی سی کی قراردادوں کی پاسداری اور کسی انتظامی اور کسی ایسے قانون سازی کے عمل سے باز رہے جو جغرافیائی اور آبادیاتی حیثیت کو تبدیل کرنے کے مترادف ہے۔

ب) کشمیریوں کی تمام بنیادی آزادیاں بحال کریں، اس کے امتیازی قوانین کو ختم کریں۔

ج) کشمیری عوام کو اقوام متحدہ اور او آئی سی کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق آزاد اور منصفانہ رائے شماری کے ذریعے اپنے حق خودارادیت کا جائز استعمال کرنے کی اجازت دیں۔

خیال رہے کہ دو روز قبل مقبوضہ کشمیر کے حکام نے نوٹی فکیشن جاری کرتے ہوئے وفاقی اکائی میں سرکاری نوکریوں اور دیگر مراعات کے لیے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے ضروری شرائط واضح کی تھیں۔

ڈومیسائل قوانین مقبوضہ کشمیر میں مستقل رہائش کے قوانین کو تبدیل کریں گے جو آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد سے معطل ہوگئے تھے۔

نئے قوانین کے مطابق جنہیں مقبوضہ کشمیر کے مستقل رہائش کا سرٹیفکیٹ حاصل ہے وہ متعلقہ حکام سے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کرسکیں گے۔

اس کے تحت وہ شخص جو بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی جانب سے بنائے گئے وفاقی اکائی میں 15 سال سے رہ رہا ہے یا 7 سال سے پڑھ رہا ہے یا مقبوضہ کشمیر میں بنے تعلیمی ادارے میں 10ویں/12ویں جماعت کے امتحانات دیے ہیں، وہ بھی ڈومیسائل سرٹفکیٹ حاصل کرنے کے اہل ہوں گے۔

اس کے علاوہ وہ افراد جو کمشنر کے پاس مہاجر کے طور پر رجسٹرڈ ہیں یا جو وفاقی حکومت کے عہدیدار کی اولاد ہیں، تمام حاضر سروسز افسر، مرکزی بینک کے حکام، قانونی اداروں کے حکام، مرکزی یونیورسٹییوں کے حکام جنہوں نے مقبوضہ کشمیر میں 10سال اپنی خدمات دی ہوں وہ ڈومیسائل سرٹفکیٹ کے اہل ہوں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں