بجٹ سے متعلق تجزیہ کاروں کا ملا جلا رد عمل

اپ ڈیٹ 13 جون 2020
—فائل فوٹو: راجہ کامران
—فائل فوٹو: راجہ کامران

معاشی تجزیہ کار خرم شہزاد نے کہا کہ بجٹ مجموعی طور پر زیادہ برا نہیں ہے، امپورٹ اور کسٹم ڈیوٹیز میں ریلیف ہے اور اسی طرح ہوٹل کی صنعت پر بھی کچھ ریلیف ہے تاہم اس کو 6 مہینے کے بجائے پورے سال کے لیے ہونا چاہیے تھا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاقی حکومت کی جانب سے اپنا دوسرا بجٹ پیش کرنے پر ردعمل دیتے ہوئے نجی ٹی وی جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بہت زیادہ ٹیکس نہیں لگائے گئے تو ٹیکس کم بھی نہیں کیے گئے۔

مزید پڑھیں: مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی نے بجٹ ’عوام دشمن‘ قرار دے کر مسترد کردیا

انہوں نے کہا کہ پنشن اور تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونا اچھا فیصلہ ہے کیونکہ یہ صرف سرکاری ملازمین کے لیے جبکہ اس وقت دہاڑی دار اور دیگر کمزور طبقوں کو مدد کی ضرورت ہے۔

بجٹ ریاضی سے تھوڑا دور لگتا ہے، محمد سہیل

ماہر معاشیات محمد سہیل نے کہا کہ ’عام آدمی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ نوکری اور ملازمت کا ہے اور میری ذاتی رائے میں قومی اسمبلی میں تقریر سننے کے بعد ملازمتوں کا معاملہ غیر یقینی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ٹیکس عائد کرنے کے معاملے میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ یہ بجٹ عملی طور پر قطعی نظر نہیں آتا ہے کیونکہ انہوں نے ٹیکسوں میں ایک ہزار ارب روپے کا اضافہ کیا ہے اور پھر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا ہے، یہ کیسے کام کرے گا؟ یہ معاملہ ریاضی سے تھوڑا دور لگتا ہے۔

محمد سہیل نے کہا کہ ’ایک چیز جو میں اچھی طرح سے سمجھا وہ یہ ہے کہ انہوں نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہیں کیا ہے لیکن انہیں انتہائی امیر لوگوں، لگژری بنگلوں اور مہنگی کاروں کی درآمد پر ٹیکس عائد کرنا چاہیے تھا‘۔

پاکستان گہری کساد بازاری میں ڈوب سکتا ہے، عزیر یونس

ماہر معاشیات عزیر یونس نے کہا کہ ’توقع یہ تھی کہ اس بجٹ میں معیشت میں مجموعی طلب کو فروغ دینے کے اقدامات شامل ہوں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک اکاؤنٹنٹ کا بجٹ ہے'۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ پاکستان کو سب سے سنگین معاشی بحران سے بچانے کے لیے کسی تخلیقی سوچ سے محروم ہے۔

عزیر یونس نے کہا کہ ’پچھلے بجٹ کی طرح معمولی آمدنی کی پیش گوئیاں بھی شامل ہیں اور مجھے آنے والے مہینوں میں اس بجٹ میں ترقی کی رجحان نہیں ملتے۔

انہوں نے کہا کہ ان اعداد و شمار کے ابتدائی جائزے کی بنیاد پر میرا نظریہ یہ ہے کہ پاکستان گہری کساد بازاری میں ڈوب جائے گا۔

2.1 فیصد کی شرح نمو کی پیش گوئی کرنا قابل بحث ہے، عادل ناخدا

ماہر اقتصادیات عادل ناخدا نے کہا کہ ’ہم یہاں جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ بجٹ پچھلے سالوں کے مقابلے میں اتنا بلند نظر نہیں ہے جس کی بڑی وجہ کووڈ 19 کا بحران ہے لیکن اس پر غور کرنے کے لیے کچھ اہم عوامل بھی موجود ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ توقع کر رہے ہیں کہ قرضوں کی مالی اعانت میں کمی واقع ہوگی، یہ فائدہ مند ہوگا کیونکہ اس سے حکومت کو تھوڑا سا فائدہ ہو گا۔

ماہر اقتصادیات عادل ناخدا کا کہنا تھا کہ ’ایک اور مثبت پہلو تجارتی نرخوں کو معقول بنانے کا اقدام ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کسٹم ڈیوٹی سے اور سیلز ٹیکس کی طرف زیادہ ہٹ رہی ہے، اس سے بالآخر برآمدات کے شعبے میں مدد ملے گی‘۔

حکومت اس ہدف کو حاصل نہیں کرسکے گی، انجم نثار

فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر انجم نثار نے کہا کہ ’کاروبار کرنے میں آسانی کو بھول جائیں، میں کاروبار کرنے کی لاگت کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں‘۔

انہوں نے کہا کہ اضافی کسٹم ڈیوٹی کو ہٹا دیا گیا، ٹیرف کم کردیا گیا، کیپٹل گین ٹیکس جو رئیل اسٹیٹ انڈسٹری سے متعلق ہے اسے 8 سے 4 سال کردیا گیا۔

انجم نثار نےکہا کہ ’حکومت اس ہدف کو حاصل نہیں کرسکے گی اور اس کی سیدھی سادی وضاحت یہ ہے کہ ہمارا زرعی شعبہ کورونا وائرس سے بری طرح متاثر ہے'۔

انہوں نے کہا کہ ’گزشتہ چند مہینوں میں ہماری صنعتوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے لہذا ایک باشعور فرد دیکھ سکتا ہے کہ اگلے سال چیزیں مثبت انداز میں نہیں ہوں گی‘۔

علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ ’تاہم 2.1 فیصد کی شرح نمو کی پیش گوئی کرنا قابل بحث ہے بشرطیکہ ہم ابھی تک یہ بھی نہیں جانتے ہیں کہ کووڈ 19 کا بحران کب ختم ہوگا‘۔

زیادہ تر اہداف غیر حقیقت پسندانہ ہیں، اشفاق تولہ

تولہ ایسوسی ایٹس کے بانی اشفاق تولہ نے کہا کہ ’میں یہاں آنے سے پہلے صرف اہداف کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے بالواسطہ اور براہ راست ٹیکس کے اہداف کو دیکھا، میرے خیال میں زیادہ تر جمع کرنے والے اہداف غیر حقیقت پسندانہ ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ان کے لیے سب سے بڑا بحران پیٹرولیم لیوی ہے، ٹڈی دَل کے حملے کے بعد معیشت کو مزید نقصان کی توقع ہے‘۔

اشفاق تولہ نے کہا کہ ’مجھے ایک احساس ہے کہ انہیں اکتوبر یا نومبر میں نیا بجٹ لانا پڑ سکتا ہے کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو وہ شاید تنخواہیں ادا نہیں کرسکیں گے‘۔

قبل ازیں وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے71 کھرب 36 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا جس میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کیا گیا۔

مزیدپڑھیں: بجٹ 21-2020: دفاع کیلئے 12 کھرب 90 ارب روپے مختص

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 2 سال کے دوران ہمارے رہنما اصول رہے ہیں کہ کرپشن کا خاتمہ کیا جائے، سرکاری اداروں میں زیادہ شفافیت لائی جائے، احتساب کا عمل جاری رکھا جائے اور ہر سطح پر فیصلہ سازی کے عمل میں میرٹ پر عمل درآمد کیا جائے۔

قومی اسمبلی میں مالی سال 21-2020 کی بجٹ تجاویز پیش کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے صنعت حماد اظہر نے کہا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا دوسرا سالانہ بجٹ پیش کرنا میرے لیے اعزاز اور مسرت کی بات ہے۔

بجٹ 21-2020 کے چند اہم نکات:

دفاعی بجٹ 1290 ارب روپے رکھنے کی تجویز ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4 ہزار 963 ارب روپے رکھنے کی تجویز نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 1610 ارب روپے رکھنے کی تجویز این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کے لیے 2 ہزار 874 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز وفاقی حکومت کا خالص ریونیو کا تخمینہ 3 ہزار 700 ارب روپے ہے اخراجات کا تخمینہ 7 ہزار 137 ارب روپے لگایا گیا ہے مجموعی بجٹ خسارہ 3 ہزار 195 ارب روپے تجویز وفاقی بجٹ خسارہ 3 ہزار 437 ارب روپے مقرر کرنے کی تجویز سبسڈیز کی مد میں 210 ارب روپے رکھنے کی تجویز پنشن کی مد میں 470 ارب روپے رکھنے کی تجویز

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں