طیارہ حادثہ: لواحقین کا کراچی یونیورسٹی کی لیب پر شکوک و شبہات کا اظہار

اپ ڈیٹ 14 جون 2020
متاثرہ افراد کے خاندانوں نے وفاقی اور صوبائی حکام سے مداخلت کرکے مسئلہ حل کرنے کا مطالبہ کیا—فائل فوٹو: اے ایف پی
متاثرہ افراد کے خاندانوں نے وفاقی اور صوبائی حکام سے مداخلت کرکے مسئلہ حل کرنے کا مطالبہ کیا—فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی: مئی میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز(پی آئی اے) کے مسافر طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے خاندانوں نے جاں بحق افراد کی شناخت اور حکومت سندھ کی فرانزک لیبارٹری کی جانب سے ان کی باقیات میں غفلت پر سوال اٹھادیے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لواحقین کے سوالات کے باعث جاں بحق افراد کی شناخت کے عمل کو سنگین شکوک میں ڈال دیا ہے۔

خیال رہے کہ 22 مئی کو ماڈل کالونی میں پی آئی اے کی پرواز پی کے 8303 آبادی پر گر کر تباہ ہونے کے نتیجے میں 99 مسافروں اور عملے کے افراد میں سے 97 جاں بحق ہوگئے تھے۔

بعدازاں طیارہ حادثے کے باعث جھلسنے والی لڑکی بھی جاں بحق ہوگئی تھی۔

مزید پڑھیں: طیارہ حادثہ: فرانسیسی ماہرین، مقامی تفتیش کاروں کا دوسرے روز بھی جائے وقوع کا دورہ

انہوں نے کراچی یونیورسٹی کے انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز (آئی سی سی بی ایس) کو مبینہ طور پر حساس اور انسانی مسئلے میں غفلت کا ذمہ دار ٹھہرایا جبکہ اس کی کارکردگی اور ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج سے متعلق سنگین شکوک و شبہات پیدا کردیے۔

کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے متاثرہ افراد کے خاندانوں نے وفاقی اور صوبائی حکام سے مداخلت کرنے اور مسئلہ حل کرنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ اکثر میتوں کی تدفین کی جاچکی ہے لیکن ان کی شناخت پہلے سے موجود نمونوں کے ذریعے کی جاسکتی ہیں اور ان کی شناخت ٹھیک کی جاسکتی ہے تاکہ ان کے لواحقین کو کچھ سکون مل سکے۔

عارف اقبال نے کہا کہ ' میں نے اس سانحے میں اپنے پورا خاندان (اہلیہ اور3 بچوں) کو کھودیا، کیا یہ کافی نہیں تھا کہ ہمیں شناخت کے ایک اور دباؤ میں ڈال دیا گیا ؟'۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں کراچی یونیورسٹی کے نتائج پر سنگین شبہ ہے، لواحقین اداروں اور حکام کے درمیان عدم تعاون کے باعث ایک جگہ سے دوسری جگہ ذلت کا سامنا کرنے جارہے ہیں۔

پنجاب کی فرانزک لیب کے کردار کی تعریف

اپنے دعووں کی حمایت میں انہوں نے بہت سی باتوں کا حوالہ دیا جن میں سے کئی خاندانوں کو ایک ہی میت وصول کرنے کے لیے آگاہ کیا گیا تھا۔

انہوں نے پنجاب فرانزک سائنس لیبارٹری کے کردار کی تعریف کی اور کہا کہ ان کی جانب سے ہر مرتبہ تیز ردعمل سامنے آیا ہے۔

عارف اقبال نے کہا کہ پنجاب فرانزک سائنس لیبارٹری کو رسائی سے روک دیا گیا تھا اور انہیں ذمہ داری مکمل کیے بغیر واپسی پر مجبور کیا گیا جبکہ ہمیں صرف کراچی یونیورسٹی پر انحصار کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔

غزل بیگ جنہوں نے اس سانحے میں اپنے بھائی عبدالوحید بیگ کو کھودیا وہ شناخت کے عمل کے دوران اپنے خاندان کی آزمائش بیان کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئیں۔

انہوں نے کہا کہ میری والدہ جو پہلے ہی صدمے کا شکار تھی انہیں بیٹے کی شناخت اور اس کی باقیات کی تدفین کے لیے بارہا بے عزت کیا گیا۔

غزل بیگ نے کہا کہ ایک روز رات گئے ان کے خاندان کو بھائی کی شناخت سے متعلق آگاہ کیا گیا اور اگلے روز میت کسی اور کے حوالے کردی گئی تھی۔

انہوں نے اس حساس معاملے میں کراچی یونیورسٹی کی غفلت پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔

محمد مبین جنہوں نے حادثے میں اپنی بھابھی کو کھودیا، انہوں نے کہا کہ جامعہ کراچی کی لیب نے نہ صرف طریقہ کار میں بہت وقت لیا بلکہ ان کے خاندان کو بھی 'گمراہ' کیا۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم نے پنجاب لیبارٹری سے رابطہ کیا اور ان کے نتائج کے مطابق میری بھابھی کی میت کسی اور کے حوالے کی جاچکی ہے'۔

محمد مبین نے کہا کہ مداخلت پر اس خاندان نے بھی شبے کا اظہار کیا اور میت وصول کرنے سے انکار کردیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی سنگین نوعیت کا معاملہ ہے، ہم ٹیکس دہندگان کی رقم سے کروڑوں روپے کے ادارے بناتے ہیں، وہ ہمارے ادارے ہیں لیکن جب بھی ہمیں ضرورت ہو وہ ہمیں بری طرح ناکام کرتے ہیں۔

ڈی این اے لیب نے اپنے خلاف 'مہم ' کو مسترد کردیا

دوسری جانب ڈان اخبار کی علیحدہ رپورٹ کے مطابق جامعہ کراچی کی سندھ فرانزک ڈی این اے اینڈ سیرولوجی لیبارٹری (ایس ایف ڈی ایل) نے مسافر طیارہ حادثے سے متعلق جمع کرائے گئے نمونوں کے فرانزک ڈی این اے کے لیے تمام بین الاقوامی معیار طے کیے ہیں۔

لیبارٹری اپنے نتائج کو ٹیسٹ شدہ اشیا سے جوڑتی ہے جبکہ سیمپلنگ، کوڈنگ، ٹیگنگ اور میتوں کو قانونی ورثا کے حوالے کرنے کی ذمہ داری میڈیکو لیگل ڈپارٹمنٹ کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی ایئرپورٹ کے قریب پی آئی اے کا مسافر طیارہ آبادی پر گر کر تباہ،97 افراد جاں بحق

مذکورہ بیان جامعہ کراچی کے انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز (آئی سی سی بی ایس) کے ڈائریکٹر اور کامسٹیک کے کوآرڈینیٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر اقبال چوہدری نے ایس ایف ڈی ایل کے ایگزیکٹو اجلاس میں دیا۔

اس موقع پر ایس ایف ڈی ایل کے انچارج ڈاکٹر اشتیاق احمد اور دیگر عہدیداران بھی موجود تھے۔

انہوں نے نجی چینل کے ٹاک شو میں ڈی این اے ٹیسٹس کے کچھ نتائج سے متعلق لگائے گئے ' جھوٹے الزامات' پر شدید تشویش کا اظہا کیا۔

ڈاکٹر اقبال چوہدری نے کہا کہ 'بدقسمتی سے کچھ عناصر کی جانب سے صوبہ سندھ کی پہلی معیاری لیبارٹری کے طور پر ایس ایف ڈی ایل کی کوششوں کو متاثر کرنے کے لیے بدنیتی پر مبنی میڈیا مہم جاری ہے'۔

تبصرے (0) بند ہیں