سپریم کورٹ آف پاکستان فائل فوٹو—
سپریم کورٹ آف پاکستان فائل فوٹو—

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی کل بروز بدھ 31 جولائی کو ہونے والی سماعت کے دوران عدالت نے نو فروری 2009ء کو قبائلی علاقے باجوڑ سے لاپتہ ہوئے خیرالرحمان کی بازیابی میں کوئی پیشرفت نہ ہونے پر خیبر پختونخوا پولیس کے سربراہ کو عدالت میں طلب کرلیا۔

عدالت نے حکم دیا کہ پولیس چیف دو اگست سے قبل عدالت میں پیش ہوکر وضاحت کریں کہ خیرالرحمان کی بازیابی میں انتظامیہ کیوں ناکام ہے۔

بدھ کے روز جب سماعت ہوئی تو خیرالرحمان کے ضعیف والد یہ سن کر عدالتی کمرے میں گر کر بے ہوش ہو  گئے کہ خیبر پختوا پولیس ایک بار پھر خالی ہاتھ عدالت کے روبرو پیش ہوئی ہے۔

عبدالرحمان جو سہارے کی مدد سے چلتے ہیں اور اپنی ضعیف اہلیہ کے ہمراہ عدالتی کاروائی میں شریک ہوئے تھے، کو فوری طوری پر علاج کے لیے عدالتی کمرے سے باہر لے جایا گیا۔

لیکن جلد ہی اُنہیں ہوش آگیا اور اس کے بجائے کہ وہ عدالتی احاطے میں ہی واقع میڈیکل سینٹر جاتے، خاموشی  سے وہاں سے چلے گئے۔

عدالت میں بے ہوش ہونے سے قبل عبدالرحمان  بہت غصے کی حالت میں تھے اور اسلام آباد پولیس کے اہلکار کی طرف  سے صرف یہ کہنے پر کہ عدالت میں شور نہ کریں، وہ بے ہوش ہوگئے۔

یاد رہے کہ خیرالرحمان قبائلی باجوڑ ایجنسی میں واقع بلال مسجد میں 13 برس سے بطور پیش امام خدمات انجام دے رہے تھے اور ایک افغان پناہ گرین  بھی اسی مسجد میں آکر نماز ادا کیا کرتا تھا اور اس کی خیرالرحمان کے ساتھ جان پہچان ہوئی اور وہ بغیر کرائے کے خیرالرحمان کے مکان کے اوپری حصے میں رہنے لگا۔

نو فروری 2009ء کو مقامی انتظامیہ اور پولیس نے خیرالرحمان  کے مکان پر چھاپہ مارا اور افغان شہری کے ساتھ خیرالرحمان اور اس کی بہن اور بہن کے شوہر جس کا دماغی توازن درست نہیں تھا، کو گرفتار کرلیا جبکہ خیرالرحمان کی بہن اور اس کے شوہر کو نو روز کے بعد رہا کردیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ  کی طرف سے کئی مرتبہ تلاشی  کے لیے ہدایت جاری کرنے کے باوجود بھی اس کے بعد سے خیرالرحمان تاحال لاپتہ ہے۔

جبری طور پر لاپتہ افراد سے متعلق مقدمے میں عدالت نے ایک اور متاثرہ عابدہ ملک کی درخواست کا حوالہ دیا جس  میں یہ الزام عائد  کیا گیا تھا کہ عابدہ کے شہور تاصف علی عرف دانش کو فوج نے اغوا کیا ہے۔

جس پر عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں فوج ملوث نہیں ہے  لیکن یہ لاپتہ افراد کا کیس ہے اور کچھ نجی پارٹیاں اس میں ملوث ہوسکتی ہیں۔

اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر  نےعدالت میں بیان جمع کروایا جس میں کہا گیا تھا کہ یہ معاملہ جنرل ہیڈکوارٹر میں ایم آئی ڈائریکٹرز کے سامنے رکھا گیا تھا اور فوج کا جواب میں کہنا تھا کہ تاصف علی کو نہ تو گرفتار کیا گیا تھا اور نہ ہی وہ ان کی حراست میں ہے اور انہوں نے اپنی سطح پر اس معاملے کو دیکھا جبکہ میجر حیدر جن پر یہ تاصف کو گرفتار کرنے کا الزام لگا یا گیا تھا، کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

عدالت نے متعلقہ انتظامیہ کو  حکم دیا کہ وہ اس معاملے سے آئین کے مطابق نمٹیں اور پولیس میجر حیدر کی انفرادی حیثت میں مبینہ کردار ادا کرنے پر انہیں گرفتار بھی کرسکتی ہے۔

عابدہ کے مطابق، اس کے شوہر تاصف علی کو مبینہ طور پر ایم آئی کے میجر حیدر نے 23 نومبر 2011ء کو آزاد کشمیر سے اغوا تھا۔

ان کے سسر ڈاکٹر اسلم نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ ہونے سے ایک روز قبل ان کے داماد کی میجر حیدر سے فون پر لڑائی ہوئی تھی۔

ان کے مطابق، میجر حیدر تاصف کے بزنس پارٹنر ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ خود بھی میجر سے مل چکے ہیں لیکن اس ملاقات کے بعد سے دوبارہ بات نہیں ہوئی۔

ایک اور شخص ہمایوں اسد کے بارے میں عدالت نے کہا کہ یہ جبری طور پر لاپتہ افراد کا کیس نہیں ہے، اس لیے کہ یہ شخص دہشت گردی سمیت سات مختلف جرائم میں ملؤث تھا۔ ہمایوں اسد کمپیوٹر کا بزنس مین تھا اور وہ 9 فروری 2011ء سے لاپتہ ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Missing persons case. Tragic story of khair ur rehman's son -Siasi Tv Aug 01, 2013 01:29pm
[…] اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی کل بروز بدھ 31 جولائی کو ہونے والی سماعت کے دوران عدالت نے نو فروری 2009ء کو قبائلی علاقے باجوڑ سے لاپتہ ہوئے خیرالرحمان کی بازیابی میں کوئی پیشرفت نہ ہونے پر خیبر پختونخوا پولیس کے سربراہ کو عدالت میں طلب کرلیا۔عدالت نے حکم دیا کہ پولیس چیف دو اگست سے قبل عدالت میں پیش ہوکر وضاحت کریں کہ خیرالرحمان کی بازیابی میں انتظامیہ کیوں ناکام ہے۔بدھ کے روز جب سماعت ہوئی تو خیرالرحمان کے ضعیف والد یہ سن کر عدالتی کمرے میں گر کر بے ہوش ہو گئے کہ خیبر پختوا پولیس ایک بار پھر خالی ہاتھ عدالت کے روبرو پیش ہوئی ہے۔عبدالرحمان جو سہارے کی مدد سے چلتے ہیں اور اپنی ضعیف اہلیہ کے ہمراہ عدالتی کاروائی میں شریک ہوئے تھے، کو فوری طوری پر علاج کے لیے عدالتی کمرے سے باہر لے جایا گیا۔لیکن جلد ہی اُنہیں ہوش آگیا اور اس کے بجائے کہ وہ عدالتی احاطے میں ہی واقع میڈیکل سینٹر جاتے، خاموشی سے وہاں سے چلے گئے۔عدالت میں بے ہوش ہونے سے قبل عبدالرحمان بہت غصے کی حالت میں تھے اور اسلام آباد پولیس کے اہلکار کی طرف سے صرف یہ کہنے پر کہ عدالت میں شور نہ کریں، وہ بے ہوش ہوگئے۔یاد رہے کہ خیرالرحمان قبائلی باجوڑ ایجنسی میں واقع بلال مسجد میں 13 برس سے بطور پیش امام خدمات انجام دے رہے تھے اور ایک افغان پناہ گرین بھی اسی مسجد میں آکر نماز ادا کیا کرتا تھا اور اس کی خیرالرحمان کے ساتھ جان پہچان ہوئی اور وہ بغیر کرائے کے خیرالرحمان کے مکان کے اوپری حصے میں رہنے لگا۔نو فروری 2009ء کو مقامی انتظامیہ اور پولیس نے خیرالرحمان کے مکان پر چھاپہ مارا اور افغان شہری کے ساتھ خیرالرحمان اور اس کی بہن اور بہن کے شوہر جس کا دماغی توازن درست نہیں تھا، کو گرفتار کرلیا جبکہ خیرالرحمان کی بہن اور اس کے شوہر کو نو روز کے بعد رہا کردیا گیا تھا۔سپریم کورٹ کی طرف سے کئی مرتبہ تلاشی کے لیے ہدایت جاری کرنے کے باوجود بھی اس کے بعد سے خیرالرحمان تاحال لاپتہ ہے۔جبری طور پر لاپتہ افراد سے متعلق مقدمے میں عدالت نے ایک اور متاثرہ عابدہ ملک کی درخواست کا حوالہ دیا جس میں یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ عابدہ کے شہور تاصف علی عرف دانش کو فوج نے اغوا کیا ہے۔جس پر عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں فوج ملوث نہیں ہے لیکن یہ لاپتہ افراد کا کیس ہے اور کچھ نجی پارٹیاں اس میں ملوث ہوسکتی ہیں۔اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نےعدالت میں بیان جمع کروایا جس میں کہا گیا تھا کہ یہ معاملہ جنرل ہیڈکوارٹر میں ایم آئی ڈائریکٹرز کے سامنے رکھا گیا تھا اور فوج کا جواب میں کہنا تھا کہ تاصف علی کو نہ تو گرفتار کیا گیا تھا اور نہ ہی وہ ان کی حراست میں ہے اور انہوں نے اپنی سطح پر اس معاملے کو دیکھا جبکہ میجر حیدر جن پر یہ تاصف کو گرفتار کرنے کا الزام لگا یا گیا تھا، کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔عدالت نے متعلقہ انتظامیہ کو حکم دیا کہ وہ اس معاملے سے آئین کے مطابق نمٹیں اور پولیس میجر حیدر کی انفرادی حیثت میں مبینہ کردار ادا کرنے پر انہیں گرفتار بھی کرسکتی ہے۔عابدہ کے مطابق، اس کے شوہر تاصف علی کو مبینہ طور پر ایم آئی کے میجر حیدر نے 23 نومبر 2011ء کو آزاد کشمیر سے اغوا تھا۔ان کے سسر ڈاکٹر اسلم نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ ہونے سے ایک روز قبل ان کے داماد کی میجر حیدر سے فون پر لڑائی ہوئی تھی۔ان کے مطابق، میجر حیدر تاصف کے بزنس پارٹنر ہوسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وہ خود بھی میجر سے مل چکے ہیں لیکن اس ملاقات کے بعد سے دوبارہ بات نہیں ہوئی۔ایک اور شخص ہمایوں اسد کے بارے میں عدالت نے کہا کہ یہ جبری طور پر لاپتہ افراد کا کیس نہیں ہے، اس لیے کہ یہ شخص دہشت گردی سمیت سات مختلف جرائم میں ملؤث تھا۔ ہمایوں اسد کمپیوٹر کا بزنس مین تھا اور وہ 9 فروری 2011ء سے لاپتہ ہے۔ http://urdu.dawn.com/2013/08/01/miss…-in-courtroom/ […]