پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹرز کا ملک میں کورونا وائرس کی صورتحال پر اظہار تشویش

اپ ڈیٹ 16 جون 2020
کچھ ماہرین نے تجویز دی کہ فوری طور پر کم سے کم 2 یا 3 ہفتوں کا لاک ڈاؤن لگادیا جائے—فائل فوٹو: اے ایف پی
کچھ ماہرین نے تجویز دی کہ فوری طور پر کم سے کم 2 یا 3 ہفتوں کا لاک ڈاؤن لگادیا جائے—فائل فوٹو: اے ایف پی

واشنگٹن: پاکستان میں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے آگاہی، خوراک کا تحفظ، سماجی فاصلہ اور فیس ماسکس وہ 4 فوری طور پر اٹھائے جانے والے ضروری اقدامات ہیں۔

یہ بات امریکا میں مقیم پاکستان ڈاکٹروں اور سائنسدانوں نے کہی۔

کووِڈ 19 انفیکشنز جولائی کے اختتام تک 12 لاکھ تک پہنچ جانے کے خدشے کے پیشِ نظر انہوں نے پاکستانی شہریوں پر زور دیا کہ نئے کیسز کی تعداد کو روکنے کے لیے حفاظتی ہدایات پر سختی سے عمل کریں۔

ان میں سے کچھ نے تجویز دی کہ فوری طور پر کم سے کم 2 یا 3 ہفتوں کا لاک ڈاؤن لگادیا جائے جس کے بعد اسے آہستہ آہستہ کھولا جائے جبکہ کچھ ماہرین کی تجویز یہ تھی کہ اس قسم کا لاک ڈاؤن آئیڈیل ہے لیکن اس پر عملدرآمد مشکل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں ایک لاکھ 48 ہزار سے زائد کورونا متاثرین، 56 ہزار 390 افراد صحتیاب

نوبیل انعام یافتہ ایڈوکیسی گروپ کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹر خالد عبداللہ نے ڈاکٹروں سے سماجی ذمہ داری کا مطالبہ کیا اور کہا کہ پاکستان میں ’مکمل لاک ڈاؤن کا نفاذ‘ تقریباً نا ممکن ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں جنوبی ایشیا میں 3 بڑی معذوریوں کا سامنا ہے گنجان آبادی، غربت اور شعور کی کمی اور ہمیں اپنی منصوبہ بندی اسی حساب سے کرنی چاہیئے، جہاں ایک چھوٹے سے گھر میں 10 سے 15 افراد رہائش پذیر ہوں وہاں لاک ڈاؤن کام نہیں کرے گا‘۔

ڈاکٹر خالد عبداللہ نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ یومیہ اجرت کمانے والوں پر مشتمل ہے کہا کہ مکمل لاک ڈاؤن سے ’لاکھوں افراد فاقہ کشی پر مجبور ہوجائیں گے‘۔

ان کے مطابق دوسرا سب سے بہترین آپشن سماجی ذمہ داریوں کا فروغ ہے جس میں ہاتھ دھونا، فیس ماسک پہننا اور محفوظ فاصلہ اختیار کرنا شامل ہے۔

مزید پڑھیں: برطانوی ادارے نے پاکستان میں کورونا کے خطرناک اعداد و شمار جاری کردیے

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سماجی ذمہ داریوں کا شعور بیدار کرنے کے لیے میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے اس لیے ٹوٹکے اور جعلی علاج دکھانے بند کیے جائیں اور ان مسائل پر بات کے لیے سیاستدانوں اور سیلیبریٹیز کو بلانے کے بجائے طبی ماہرین کو بلایا جائے۔

ڈاکٹر خالد عبدالللہ نے حکومت پر زور دیا کہ خوراک کی فراہمی کے لیے’ایک سپلائی چین‘ قائم کی جائے کیوں کہ چاہے ہم کچھ بھی کریں اس بحران سے غربت اور بھوک میں اضافہ ہوگا۔

انہوں نےکہا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں حکومت کو مالی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیوں کہ بجٹ میں صحت اور تحفظ خوراک کے لیے مختص کی گئی رقم سے کام نہیں بنے گا اور ہمیں مزید کچھ کرنا ہوگا۔

اس موقع پر ڈاکٹر طارق شہاب کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں صورتحال قابو سے باہر ہورہی ہے، ہسپتالوں میں بیڈز کی کمی ہمیں ملک بھر سے مایوس کن اطلاعات موصول ہورہی ہیں‘۔

یہ بھی دیکھیں: کورونا کا پھیلاؤ روکنے کیلئے مخصوص شہروں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن

آگاہی کے سلسلے میں سوشل میڈیا پر روزانہ ٹاک شو کرنے والے ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ کچھ کالرز ایکٹمرا یا ریمڈیسیورچاہتے تھے جسے صرف حکومت کی منظوری سے دیا جاسکتا ہے جبکہ کچھ پلازمہ کی درخواست کررہے تھے۔

ڈاکٹر طارق شہاب نے صورتحال کا ذمہ دار عید کے موقع پر پابندیوں میں نرمی کرنے کو قرار دیا۔


یہ خبر 16 جون 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں