بے روزگار افراد کی تعداد 21-2020 میں 66 لاکھ 50 ہزار تک پہنچ جائے گی

اپ ڈیٹ 17 جون 2020
پاکستان میں تعلیم یافتی بے روزگار افراد خصوصاً ڈگری رکھنے والے افراد میں بے روزگاری کا رجحان دیکھا جارہا ہے۔ اے ایف پی:فائل فوٹو
پاکستان میں تعلیم یافتی بے روزگار افراد خصوصاً ڈگری رکھنے والے افراد میں بے روزگاری کا رجحان دیکھا جارہا ہے۔ اے ایف پی:فائل فوٹو

اسلام آباد: مالی سال 21-2020 کے دوران ملک میں بے روزگار افراد کی تعداد 66 لاکھ 50 ہزار تک پہنچنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ مالی سال 20-2019 کے دوران اس کی تعداد 58 لاکھ تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت کے سالانہ منصوبے 21-2020 کے مطابق پاکستان میں دنیا کی نویں بڑی لیبر فورس ہے جو ہر سال بڑھتی جارہی ہے۔

ملازمت یافتہ افراد کی تعداد21-2020 میں 6 کروڑ 92 لاکھ ہوجائے گی جو 20-2019 میں 6 کروڑ 21 لاکھ رہی۔

لیبر فورس سروے 18-2017 کے مطابق آئندہ مالی سال (21-2020) کے لیے بے روزگاری کی شرح 9.56 فیصد بتائی گئی ہے۔

پاکستان میں تعلیم یافتہ بے روزگار افراد خصوصاً ڈگری رکھنے والے بے روزگار افراد کے رجحان میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: بے روزگاری تنگ آکر مجبور باپ نے خود کو آگ لگاکر خود کشی کرلی

ڈگری رکھنے والوں میں بے روزگاری کی شرح دیگر مجموعی طور پر بے روزگار افراد کے مقابلے میں تقریبا 3 گنا زیادہ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ فراہم کی جانے والی تعلیم اور نئے تعلیم یافتہ افراد کو جزب کرنے کی معیشت کی ضرورت کے درمیان مطابقت نہیں ہے۔

اسی طرح لیبر فورس سروے 18-2017 کے مطابق بے روزگاری میں مردوں کے مقابلے خواتین میں کی شرح زیادہ ہے جو بالترتیب 8.27 فیصد اور 5.07 فیصد ہے۔

اوسطاً بیروزگاری کی شرح کے مقابلے میں نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح کافی زیادہ ہے۔

بیروزگاری کی سب سے زیادہ شرح 11.56 فیصد، 20-24 سال کی عمر والے افراد میں پائی جاتی ہے۔

سالانہ منصوبے میں روزگار کی اہمیت کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا کہ معاشرے کے ناقص طبقات میں ترقی کے ثمرات کو تقسیم کرنے کے لیے نتیجہ خیز معاوضے اور مہذب ملازمتوں کی فراہمی بنیادی طریقہ کار ہے، روزگار کے مواقع پیدا کرنا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے، نوجوان نسل کو روزگار کی فراہمی ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور نوجوان نسل کی صلاحیتوں کی ترقی اور ان کو بروئے کار لانا بہت ضروری ہے۔

پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے جس کی مجموعی آبادی 21 کروڑ سے زائد ہے۔

آبادی میں اضافے کی موجودہ شرح کو دیکھتے ہوئے اس کا اندازہ لگایا جاتا ہے کہ 2030 تک اس کی آبادی 28 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔

فی الحال آبادی میں 63 فیصد افراد کی عمر 30 سال سے کم ہے۔

اس وقت نوجوانوں کو روزگار کے لیے صحیح مہارتیں حاصل کرنے میں مدد کرنا معاشی لحاظ سے معنی رکھتا ہے جبکہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس وقت تعلیم، روزگار یا تربیت سے وابستہ نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس سے بڑھتی بیروزگاری: کراچی سے رکشے پر پختونخوا جانے والے دوستوں کی کہانی

پاکستان میں خصوصی تکنیکی، پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیت کے شعبے میں داخلے بھی کم ہیں جو دونوں صنفوں میں مہارت کی تربیت کی اعلی طلب کے باوجود برقرار ہے۔

نوجوانوں میں روزگار سے متعلق صلاحیتوں کے فرق کے نمایاں اثرات سامنے آرہے ہیں، لہذا تعلیم اور ملازمت کے مابین ایک متحرک رشتہ برقرار رکھنا انتہائی ضروری ہے۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ سالانہ منصوبے میں ہنر کی ترقی پر فوکس کیا گیا ہے جو نوجوانوں کے لیے نتیجہ خیز روزگار کے مواقع فراہم کرے گا۔

پاکستان کی معیشت کورونا وائرس کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

اس وبا کے منفی معاشی اثرات مختلف طریقوں سے سامنے آئے جس میں گھریلو طلب میں کمی، کاروباری سرگرمیوں میں کمی، درآمد اور برآمد میں کمی اور سپلائی چین میں خلل کی وجہ سے پیداوار میں کمی شامل ہیں۔

اس کا ایک سب سے اہم اثر روزگار میں کمی کی صورت میں سامنے آیا، افرادی قوت کو اس وقت پریشانیوں کا سامنا ہے، وبائی بیماری نے صحت کے بحران سے لے کر معاشی اور مزدور منڈی کے بحرانوں میں تیزی سے اضافہ کیا ہے۔

حکومتی دعوؤں کے مطابق سالانہ منصوبہ اقتصادی ترقی اور اصلاحات کے حکومتی منصوبوں کے وسیع تر فریم ورک کے تحت روزگار کے بہتر مواقع پیدا کرنے پر مرکوز ہے اور ورکرز اور ان کی ملازمتوں کے تحفظ کے لیے کورونا وائرس کے قابل عمل اقدامات کی تجویز بھی موجود ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں