بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل کا پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت سے علیحدگی کا اعلان

اپ ڈیٹ 17 جون 2020
سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کیا— اسکرین شاٹ
سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کیا— اسکرین شاٹ

بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل گروپ کے صدر سردار اختر مینگل نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حکومت کے اتحاد سے اپنی جماعت کی علیحدگی کا اعلان کردیا۔

واضح رہے کہ قومی اسمبلی میں بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل کی 4 نشستیں ہیں اور بی این پی-مینگل کی حکومت سے علیحدگی کے بعد حکمران جماعت مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کا تعارف

بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل کے صدر نے کہا کہ ہر بجٹ کو عوام دوست بجٹ کہا جاتا ہے لیکن اب تک جو بجٹ آئے ہیں ان میں ہمیں کتنی فیصد عوام دوستی کی جھلک نظر آئی ہے؟

'عوام دوست بجٹ آج تک اس ملک میں آیا نہ کبھی آنے کا امکانات ہے'

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ بجٹ ممبر دوست ہو سکتا ہے، وزرا دوست ہو سکتا ہے، بیوروکریسی دوست ہو سکتا ہے، عسکریت دوست ہو سکتا ہے لیکن عوام دوست بجٹ آج تک نہ اس ملک میں آیا ہے اور نہ ہی کبھی آنے کے امکانات ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ اس ملک کے موجودہ بجٹ سے فائدہ کسے پہنچ رہا ہے، کیا غریب کو فائدہ ملے گا، غریبوں کے لیے روزگار کے دروازے کھول دیے گئے ہیں؟ کیا انہی بجٹ کے باعث عوام کی مہنگائی سے کمر چور چور نہیں ہوئیں؟۔

یہ بھی پڑھیں: اختر مینگل کی حکومت سے اتحاد ختم کرنے کی دھمکی

اختر مینگل نے کہا کہ اس ملک میں آج تک کسی کو انصاف نہیں ملا، کوڑیوں کے بھاؤ یہاں انصاف بکا ہے اور خریدار بھی ہم ہیں، ہم نے اس عوام کو مجبور کیا ہے کہ وہ انصاف لیں نہیں، انصاف کو خریدیں اور منڈیوں میں جس طرح انصاف بکتا ہے شاید ہی اس ملک کے علاوہ کہیں بکتا ہو۔

اسمبلی میں خوردبین سے حکومتی اراکین کو ڈھونڈنا پڑتا ہے، مینگل

انہوں نے کہا کہ ہم نے کہا کہ ہم لوگوں کو روزگار دیں گے، صنعتیں روز بروز بند ہوتی جا رہی ہیں، آپ کی سب سے بڑی صنعت جس کو اسٹیل مل کہا جاتا تھا، آج اس کے مزدور سراپا احتجاج ہیں، اس کی نجکاری کی جا رہی ہے، ان لوگوں کو بیروزگار کرایا جا رہا ہے، اس حلقے کے نمائندے یہاں احتجاج کرتے ہیں لیکن یہاں کوئی سننے والا نہیں ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل کے صدر نے مزید کہا کہ حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ جس دن بجٹ پیش کیا جاتا ہے تو پہلی صف بھری ہوتی ہے، جس دن بجٹ منظور کیا جاتا ہے تو صف بھری ہوتی ہے لیکن جب تجاویز پیش کی جاتی ہیں تو خوردبین سے حکومتی اراکین کو ڈھونڈنا پڑتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام اس وقت ممکن ہو سکتا ہے جب عوام کے حقیقی نمائندگی کا حق رکھنے والے فری اینڈ فیئر الیکشن کے تحت منتخب ہو کر آئیں، جن کو عوام کا درد ہو، عوام کی مجبوریوں اور مصیبتوں کا احساس ہو۔

'تجاویز کو حل نہیں کر سکتے تو کم از کم نوٹ تو کر لیں'

انہوں نے کہا کہ جنہوں نے ننگے پاؤں ان لوگوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر سیاسی جدوجہد کی ہے، جنہوں نے اپنی، اپنے بچوں اور اپنی قوم کی جانیں گنوائی ہیں ان کو یہ احساس ہو گا کہ بجٹ کی اہمیت کیا ہے اور بجٹ سے کیا لینا چاہیے اور عوام کو کیا دینا چاہیے۔

مزید پڑھیں: بی این پی مینگل کی ایک مرتبہ پھر وفاقی حکومت سے علیحدگی کی دھمکی

انہوں نے قومی اسمبلی میں خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اراکین اسمبلی اپنے حلقہ انتخاب سے منتخب ہو کر آئے ہیں، لوگوں کا احساس ہے ان میں اور وہ لوگوں کے احساس کو آپ تک پہنچانا چاہتے ہیں، مہربانی کر کے اگر آپ ان کی تجاویز کو حل نہیں کر سکتے تو کم از کم نوٹ تو کر لیں۔

سردار اختر مینگل نے کہا کہ اگر آپ لوگوں کے پاس کاغذ کے ٹکڑے نہیں ہیں، قلم نہیں ہیں، ہم سب فراہم کریں گے، چندہ کریں گے، ہم مولانا صاحب سے کہیں گے تمام مسجدوں میں اعلان کردیں کہ کاغذ اور چندے اکٹھے کر کے آپ لوگ ان سے نوٹ فرمائیں'۔

اگلا بجٹ کہیں ہم کورونا یا ٹڈی دل کے حوالے تو نہیں کردیں گے؟

انہوں نے کہا کہ ہمارے یہاں ایک روایت رہی ہے کہ ہر حکومت پچھلی حکومت کو مورد الزام ٹھہراتی ہے، میں موجودہ حکومت کی بات نہیں کرتا، پچھلی حکومتوں نے بھی یہی کیا ہو گا، اس سے پچھلی حکومتوں نے بھی یہی کیا ہو گا کہ یہ بدحال معیشت ہمیں ورثے میں ملی ہے، خالی خزانہ ہمیں ورثے میں ملا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ اسے ورثے کے چکر میں کھینچتے لے جائیں تو بات 1947 تک پہنچ جائے گی کیونکہ ورثہ تو وہاں سے شروع ہوتا ہے، پھر تو آپ کہیں گے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے ہمیں پاکستان خالی اور کھوکھلا کر کے دیا ہوا تھا۔

اختر مینگل نے مزید کہا کہ آپ یہ کہیں کہ میں نے کیا کیا ہے، میں کیا کرنا چاہتا ہوں لیکن مجھے تو شک ہے کہ اگلا بجٹ کہیں ہم کورونا یا ٹڈی دل کے حوالے تو نہیں کردیں گے، کیونکہ یہ کہیں گے کہ یہ جو بجٹ ہم دینے جا رہے ہیں اس کی ذمے دار کورونا یا ٹڈی دل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ‘مسئلہ بجٹ میں ووٹ دینا نہیں بلکہ بلوچستان کی حالت زار ہے‘

ان کا کہنا تھا کہ بجٹ سے پہلے چینی، آٹے، پیٹرول وار اشیائے خورونوش کا بحران تھا، امن و امان کا بحران تھا، لوگوں کی اپنے گھروں میں حفاظت کا بحران تھا لیکن اس کے لیے کیا کچھ کیا گیا؟ روزگار دینے کے بجائے روزگار چھینا جا رہا ہے۔

'حکومت این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کے معاملے کی وضاحت کرے'

انہوں نے کہا کہ بجٹ میں کہا گیا کہ این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کی جائے گی، یہ غلطی سے چھپا ہے یا زبان پھسل گئی ہے؟ نہیں، یہ ان کی پالیسی ہے اور اس پالیسی کے چرچے ہم کئی عرصے سے سن رہے ہیں۔

اختر مینگل نے کہا کہ میں اس ایوان کے توسط سے حکومت اور وزرا سے اس بات کی وضاحت چاہوں گا کہ یہ نظرثانی کس طرح کی جا رہی ہے، کیا یہ جو کہا جارہا تھا کہ 18ویں ترمیم کو ختم کیا جائے گا تو کیا یہ اسی کا حصہ ہے، یہ کس کی پالیسی ہے، حکومت کی پالیسی ہے، ان کے اتحادیوں کی پالیسی ہے یا کسی اور کی پالیسی ہے۔

انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کی رقم کو کم کردیا گیا ہے اور اس کے بدلے میں تمام صوبوں کو پیکج دیے گئے ہیں لیکن بلوچستان کو صرف '10 ارب کا پیکٹ' دیا گیا ہے۔

'بلوچستان میں دہشت گردی سے زیادہ لوگ حادثات میں مرے'

ان کا کہنا تھا کہ کراچی سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے چمن 813 کلومیٹر کا یہ فاصلہ ہے، بلوچستان میں شاید اتنے لوگ دہشت گردی سے نہیں مرے جتنے اس سڑک پر حادثات سے مرے ہیں، ساڑھے 4 ہزار لوگ حادثات کا شکار ہو کر مرے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں ہم نے درخواست کی تھی کہ خدا کے واسطے ہمیں چھ لائن والا موٹر وے نہیں چاہیے، ہمیں وہ نہیں چاہیے کیونکہ وہ کشادہ دل آپ کے ہو سکتے ہیں، ہم اتنے بڑی کشادہ سڑکوں پر نہیں چل سکتے، ہمیں صرف دو رویہ سڑک فراہم کی جائے۔

اختر مینگل کا کہنا تھا کہ پچھلے پی ایس ڈی پی میں جو بجٹ رکھا گیا تھا، اس سال اسے کورونا یا ٹڈی دل کھا گیا، یہ اسی طرح بلوچستان کو اپنے ساتھ چلائیں گے؟ یہی ہے بلوچستان کی اہمیت؟ یہی ہیں بلوچستان کی احساس محرومی کو ختم کرنے کے طریقے اور یہ روڈ آپ کے کوسٹل ہائی، سی پیک، رتو ڈیرو سے خضدار سڑک اور تفتان سڑک سے بھی جا کر ملتا ہے۔

مزیدپڑھیں: بلوچستان نے شدید مالی خسارے پر وفاق سے مدد مانگ لی

انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کورونا ایک عالمی وبا ہے اور ترقی یافتہ ممالک بھی اسے کنٹرول نہیں کر پارہے اور اس کی بنیادی ضروریات احتیاط اور تشخیص ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب یہ وبا چین سے اٹلی پہنچی اور ہزاروں کی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں تو یہ ہمارے لیے وارننگ تھی لیکن ہم نے احتیاط نہیں کی، ایس او پیز جو اس وقت ہمیں اپنانے چاہیے تھے، وہ آج ہم اپنانے کی کوشش کررہے ہیں۔

تفتان کی سرحد کھولنے کی اجازت کس نے دی تھی؟

انہوں نے کہا کہ 'ہم نے تفتان کے بارڈر کو کھول دیا، شاید کسی عقل مند نے کہا ہو گا کہ آنے دو ان لوگوں کو، یہ جب آئیں گے تو کورونا آئے گا، جس طرح افغان مہاجرین آئے تھے تو ان کے ساتھ ڈالر تھے تو ان کے ساتھ بھی ڈالر آئیں گے'۔

اختر مینگل نے سوال کیا کہ تفتان کی سرحد کو کھولنے کی اجازت کس نے دی تھی؟ کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیے تھیں، کوئی نارمل بندہ بھی حکومت کی جانب سے لگائے گئے ٹینٹوں میں نہیں رہ سکتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر اس کی ذمے دار وفاقی حکومت ہے، اگر اس کی ذمے دار وفاقی حکومت کے ادارے ہیں، اگر اس کی ذمے دار صوبائی حکومتیں ہیں، میں آج مطالبہ کرتا ہوں کہ جو بھی ہلاکتیں ہوئی ہیں ان کی ایف آئی آر ان حکمرانوں کے خلاف کٹائی جائے کیونکہ یہ ہی ان کے ذمے دار ہیں۔

'بلوچستان کے 32اضلاع ٹڈی دل کی لپیٹ میں ہیں'

اختر مینگل نے کہا کہ غالباً پچھلے سال اسی مہینے میں ہم نے کہا تھا کہ ٹڈی دل آ رہا ہے اس کے لیے احتیاط کی جائے، آصف علی زرداری سمیت کئی اراکین نے اس پر بات کی لیکن کسی نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا اور چند اضلاع تک محدود ٹڈی دل آج پورے ملک میں پھیل چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے 32 اضلاع اس کی لپیٹ میں ہیں، کوئی بھی فصل نہیں چھوڑی، گندم، کپاس، سبزیوں اور باغات سمیت سب کچھ تباہ ہو گیا ہے۔

'مطالبات غیرآئینی ہیں تو ان پر دستخط کرنے والوں کو بھی ہمارے ساتھ سزائے موت دی جائے'

بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل کے سربراہ نے کہا کہ 2012 میں جب میں سپریم کورٹ میں پیش ہوا تو عمران خان صاحب نے کندھے سے کندھا ملا کر کہا کہ بلوچستان میں ظلم و زیادتیاں ہوئی ہیں، لاپتہ افراد کا مسئلہ غلط ہے اور جو ان کے ذمے دار ہیں، میں ان کو کٹہرے میں لاؤں گا جبکہ اس سے پہلے میاں نواز شریف نے بھی یہی کہا۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان سے ابھی بھی مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں، اختر مینگل

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہوا، ہم نہیں بنی گالا گئے بلکہ وہ کوئٹہ آئے، دو معاہدے ہوئے، ایک 8 اگست 2018 کو ہوا اس میں شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، سردار یار محمد رند کے دستخط ہیں اور لاپتہ افراد اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد سمیت تمام مسائل پر انہوں نے من و عن اتفاق کیا۔

اختر مینگل نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس کے بعد صدارتی الیکشن کے موقع پر بلوچستان میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے معاہدہ ہوتا ہے جس میں صحت، تعلیم، پانی، توانائی، ملازمت، گوادر کا مسئلہ، انفرااسٹرکچر فیڈرل پی ایس ڈی پی سمیت دیگر باتیں شامل تھیں، کوئی ایک شخص ہاتھ اٹھا کر کہہ دے کہ ان نکات میں سے ایک بھی نکتہ غیرآئینی او غیرقانونی ہے۔

انہوں نے کہاکہ 'اگر یہ مطالبات غیرآئینی ہیں تو اس جرم کے ذمے دار صرف ہم نہیں ہیں، ہم نے مطالبہ کیا، اگر اس کے جرم میں ہمیں سزائے موت دی جاتی ہے تو اس پر دستخط کرنے والوں کو بھی ہمارے ساتھ سزائے موت دی جائے، اس میں آپ کے موجودہ صدر بھی ہیں، کیوں عملدرآمد نہیں ہوتا'۔

'ہم سے اس ملک کے شہری جیسا سلوک کیا جائے'

ان کا کہنا تھاکہ یہ ذہنیت 1947 سے چلی آ رہی ہے، یہ وہ مائنڈ سیٹ ہے جس نے بلوچستان اور چھوٹے صوبوں کو اس ملک کی کالونی سمجھا ہوا ہے لیکن ہم کالونی نہیں ہیں، اگر ہمیں اس ملک کا حصہ سمجھا جاتا ہے تو ہم سے شہری جیسا سلوک کیا جائے۔

اختر مینگل نے کہا کہ دو دن پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک لڑکی جس کا بھائی چار سال سے غائب ہے، وہ احتجاج کرتے کرتے اتنی تھک گئی کہ دو دن پہلے اس نے خودکشی کر لی، اس کی ایف آئی آر کس پر کاٹوں، اپنے آپ پر کہ میں نے اسے کہا کہ انتظار کرو، اپنے پارٹی کے نمائندگان پر اس کی ایف آئی آر کٹواؤں کہ میں نے ان سے کہا کہ تمہارا بھائی آئے گا یا ان لوگوں نے جنہوں مجھے یہ آسرا دیا کہ ان سب کے بھائی، بیٹے اور والد آئیں گے، ان پر ایف آئی آر کاٹوں یا حسب روایت ان سب پر مٹی پادوں۔

مزید پڑھیں: بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صحافی سوئیڈن میں لاپتہ

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اور ہم نے ہمیشہ اس مسئلے کو سیاسی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کی اور ان کے ذریعے ہم نے آپ کو ایک راہ دکھائی تھی کہ خدارا اگر آپ بلوچستان کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں تو اس پر عملدرآمد کریں۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر کے حوالے سے کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں، کشمیر تو جب ملے گا سو ملے لیکن جو آپ کے ہاتھ میں ہے اور جو جا رہا ہے اس کے لیے تو کمیٹی بناؤ، کیوں نہیں کمیٹیاں بناتے۔

’بلوچستان کی تقدیر بدلنے کیلئے اس کا جائز حق دینا ہوگا‘

انہوں نے کہا کہ اگر بلوچستان کی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں تو بلوچستان کو اس کا جائز حق دیں، بلوچستان کو اس ملک کا برابر حصہ دینا ہو گا، آج نہیں تو کل دینا ہو گا۔

اختر مینگل نے کہا کہ اس ملک میں افغانستان امن کانفرنس بلائی جا سکتی ہے تو بلوچستان امن کانفرنس کیوں نہیں بلائی جا سکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یا تو یہ کہہ دیں کہ نوگو ایریا ہے بلوچستان، یا ممنوعہ علاقہ ہے، اگر ممنوعہ نہیں کہہ سکتے تو مفتوحہ کہہ دیں، اگر مفتوحہ نہیں کہہ سکتے تو مقبوضہ کہہ دیں، پھر وہ چیزیں جو کچھ آپ کر رہے ہیں اس میں بالکل جائز ہوتی ہیں، پھر بلوچستان کا کوئی بے وقوف ہی ہو گا جو آپ سے گلا کرے گا، ان تینوں میں سے ایک نام آئین میں ترامیم کر کے دے دیں، مفتوحہ بلوچستان یا مقبوضہ بلوچستان'۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان حکومت میں اختلافات،اسپیکر کی وزیر اعلیٰ کےخلاف تحریک استحقاق

انہوں نے کہا کہ ہم آپ سے کوئی گلا نہیں کریں گے، ہم اپنی لاشیں بھی خاموشی سے دفنائیں گے، ان لاپتہ افراد کے لواحقین کو بولیں گے کہ اب رونا بس کردو، یہ خدا کی طرف سے تم پر قہر آیا ہے اس کو سہتے رہو۔

پی ٹی آئی سے اتحاد کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان

بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل کے سربراہ نے مزید کہا کہ کورونا کی وجہ سے پورے ملک میں آن لائن کلاسز ہو رہی ہیں لیکن بلوچستان میں نہیں ہو رہیں کیونکہ انٹرنیٹ پچھلے 8 سال سے بلوچستان میں بند کردیا گیا ہے، وہاں کوئی تھری جی یا فور جی سروسز دستیاب نہیں۔

انہوں نے اپنی تقریر کے اختتام پر کہا کہ ہماری پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے کئی اجلاس ہوئے، ہم نے اتحادیوں کو یاد دہانی بھی کرائی، ان کو شاید ہماری ضرورت نہیں تھی تو آج بلوچستان نیشنل پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے فیصلے کے توسط سے پی ٹی آئی سے میں اپنی پارٹی کے اتحاد کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان کرتا ہوں۔

یاد رہے کہ اگست 2018 میں بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل اور تحریک انصاف نے مرکز میں حکومت سے اتحاد کے لیے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے تھے۔

مزید پڑھیں: بلوچستان میں میڈیا سے وابستہ 2 درجن سے زائد افراد کورونا وائرس کا شکار

اس یادداشت کے تحت چھ نکاتی ایجنڈے پر اتفاق کیا گیا جس میں لاپتا افراد کی بازیابی، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد، وفاقی حکومت میں بلوچستان کے لیے 6 فیصد کوٹا پر عملدرآمد، افغان مہاجرین کی فوری واپسی اور صوبے میں پانی کے بحران کے بحران کے حل کے لیے ڈیم کا قیام شامل تھا۔

بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل نے صرف مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت سے اتحاد کیا تھا جبکہ صوبائی سطح پر پارٹی کا جمعیت علمائے اسلام (فضل) سے اتحاد جاری رہا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں