اسلام آباد: لاک ڈاؤن والے علاقوں میں وائرس کے کیسز میں 90 فیصد کمی

اپ ڈیٹ 18 جون 2020
وائرس کا پھیلاؤ کم سے کم کرنے کے لیے عالمی ادارہ صحت کیتجاویز پر عملدرآمد ہونا چاہیئے—تصویر: اے پی
وائرس کا پھیلاؤ کم سے کم کرنے کے لیے عالمی ادارہ صحت کیتجاویز پر عملدرآمد ہونا چاہیئے—تصویر: اے پی

اسمارٹ لاک ڈاؤن کے نفاذ کے ثمرات برآمد ہونا شروع ہوگئے اور وفاقی دارالحکومت اسلام آبا کے جن دو علاقوں کو سیل کیا گیا تھا وہاں کورونا وائرس کیسز 90 فیصد کم ہوگئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کے میئر حمزہ شفاعت نے میڈیا کو بتایا کہ ’سیکٹر جی-9 میں تقریباً 100 کیسز یومیہ رپورٹ ہورہے تھے لیکن اسمارٹ لاک ڈاؤن لگانے سے کیسز کی تعداد 8-9 کیسز روزانہ تک گر گئی‘۔

ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ ’یہ صرف لاک ڈاؤن کا فائدہ ہے جس کے ذریعے لوگوں کی نقل و حرکت کو محدود کردیا گیا تھا‘۔

یہ بھی پڑھیں: 20 جون سے دیگر ایئر لائنز کو بھی پاکستان آنے کی اجازت ہوگی، معید یوسف

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ کسی شخص کو لاک ڈاؤن کے زیر اثر علاقے میں غیر ضروری طور پر اندر یا باہر جانے کی اجازت نہیں تھی اور اس مہلک وائرس کی انسان سے انسان میں منتقلی کا امکان روکنے کے لیے نقل وحرکت کو بھی روکا گیا۔

دوسری جانب ملک میں گزشتہ روز 5 ہزار 785 نئے کیسز اور 133 اموات رپورٹ ہوئیں جس کے بعد کیسز کی مجموعی تعداد ایک لاکھ 57 ہزار 738 جبکہ اموات 3 ہزار 33 تک جا پہنچیں۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے اس بات پر زور دیا کہ وائرس کا پھیلاؤ کم سے کم کرنے کے لیے عالمی ادارہ صحت کی تجاویز پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔

یہاں یہ بات مدِنظر رہے کہ عالمی ادارہ صحت نے وائرس کی منتقلی روکنے کے لیے 15 دن کے وقفے سے 15 دن کے لاک ڈاؤن کی تجویز دی تھی۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس: ڈاکٹر ظفر مرزا نے ڈیکسامیتھازون کے استعمال پر خبردار کردیا

ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا تھا کہ اس وائرل بیماری کا پھیلاؤ روکنے کے لیے کم از کم پورے شہروں کو لاک کریں بصورت دیگر ملک اس سے کبھی چھٹکارا نہیں پاسکے گا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کچھ علاقوں میں لاک ڈاؤن لگا کر وائرس کو ختم نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ عوام کام کے لیے ان علاقوں سے نکلیں گے اور دیگر وجوہات کی بنا پر بھی پابندیوں کی خلاف ورزی کرسکتے ہیں۔

لہٰذا اگر پورے شہر کو بند کردیا جائے تو لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں کے پاس باہر نکلنے کا کوئی جواز نہیں ہوگا۔

انہوں نے یہ تجویز بھی دی کہ ہدایات کی خلاف ورزی کرنے والوں پر بھاری جرمانے عائد کیے جائیں کیوں عوام کی بڑی تعداد ماسک نہیں پہنتی اور اگر پہنتی ہے تو اسے تھوڑی اور گردن میں لٹکائے رکھتی ہے۔

ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا کہ حکمرانوں کو چاہیے کہ صرف ایک نکاتی ایجنڈے پر اجلاس کریں اور وہ وبا پر قابو پانا ہو اس سلسلے میں نہ صرف وفاق اور صوبوں کی یکساں پالسی ہونی چاہیے بلکہ حکومت اور اپوزیشن پارٹیوں کا بھی ایک جیسا مؤقف ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں کورونا کے پھیلاؤ کی کیفیت پر تحقیق کیلئے ڈبلیو ایچ او سے معاہدہ

ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ یہ کووِڈ 19 کے علاج کے لیے ادویات کے برینڈ نام میڈیا میں آجاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ مارکیٹ سے غائب ہوجاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حتیٰ کہ حکومتی شخصیات بھی ادویات کے نام استعمال کررہی ہیں جو قابل مذمت ہے اس کے بجائے حکومت کو اس کا جنرل نام (فارمولا) لینا چاہیے تاکہ ان ادویات کی قلت نہ ہو۔

تبصرے (0) بند ہیں