وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ بھارت کو سلامتی کونسل کا رکن بننے سے روکنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ پاکستان الیکشن لڑتا مگر اس سے ہمیں کچھ بھی حاصل نہیں ہونا تھا۔

بھارت کے سیکیورٹی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب ہونے سے متعلق سینیٹ میں بیان دیتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت 8، 9 سال سے سیکیورٹی کونسل کا رکن بننے کی مہم کر رہا تھا اور کئی ممالک اسے ووٹ دینے پر آمادگی کا اظہار کرچکے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت کو سلامتی کونسل کا رکن بننے سے روکنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ پاکستان بھی اس الیکشن میں حصہ لیتا۔

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کو مقابلہ کرکے حاصل کیا ہونا تھا؟ اگر اس آخری لمحات میں پاکستان بے وقوفانہ طریقے سے الیکشن میں کود پڑتا تو ہمیں کچھ حاصل نہیں ہونا تھا بلکہ ہمارا سفارتی طریقہ کار بھی متاثر ہوتا اور سال 2026 میں ہمارے سیکیورٹی کونسل کے رکن بننے کے امکانات بھی متاثر ہوتے، کیا یہ پاکستان کے مفاد میں تھا؟‘

شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ بھارت سیکیورٹی کونسل کا رکن بننے کی مہم 2013 سے کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نہیں تھی، اس وقت حکومت کس جماعت کی تھی، وزیر خارجہ کون تھا، واک آور دیا تو ہم نے نہیں کسی اور نے دیا ہو گا‘۔

مزید پڑھیں: بھارت سلامتی کونسل کا رکن بن گیا تو قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی، وزیر خارجہ

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے سلامتی کونسل میں بھارت کے خلاف ووٹ ڈالنے سے اجتناب نہیں کیا ہے‘۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ‘پاکستان 2026 کے لیے سیکیورٹی کونسل کا امیدوار ہے اور اس کے لیے ہم نے ابھی سے مہم شروع کر رکھی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’آج کا فیصلہ کل کے فیصلے پر اثر انداز ہو سکتا ہے، یہ اسٹریٹجک فیصلے ہوتے ہیں جذبات سے نہیں کیے جاتے‘۔

انہوں نے یاد دلایا کہ ماضی میں بھارت 7 مرتبہ اور پاکستان بھی 7 مرتبہ سیکیورٹی کونسل کا رکن بن چکا ہے اور سوال کیا کہ بھارت کیا ’سیکیورٹی کونسل کا پہلے رکن بن کرکے کشمیر پر اقوام متحدہ کا مؤقف تبدیل کرنے میں کامیاب ہوا ہے؟‘

وزیر خارجہ نے خبردار کیا کہ ’بھارت فالس فلیگ آپریشن کر سکتا ہے، قوم تیار رہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت، میکسیکو، ناروے اور آئرلینڈ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن منتخب

انہوں نے کہا کہ ’بھارت خبردار رہے، آپ نے ہم پر ہاتھ اٹھایا تو فروری یاد رکھنا اور فوری جواب کے لیے تیار رہنا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت کا مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت واپس لینے کا پانچ اگست کا فیصلہ چین نے مسترد کردیا ہے اور آج لداخ میں بھارت کے فوجیوں کی لاشیں اٹھ رہی ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ خطے میں ایک ڈرامائی تبدیلی ہے، جھگڑا خونی شکل اختیار کر گیا ہے، بھارت تنہا ہو رہا ہے اور دباؤ میں آ رہا ہے‘۔

واضح رہے کہ دو روز قبل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں 2021 اور 2022 کے لیے بھارت رکن منتخب کیا گیا تھا۔

بھارت سلامتی کونسل میں مستقل نشست جیتنے کی ناکام کوشش کررہا ہے اور یہ رکن کی حیثیت سے بھارت کا آٹھواں دور ہوگا۔

مذکورہ نتائج کا مطلب ہے کہ بھارت اب چین کے ساتھ براجمان ہوگا وہ بھی ہمالیائی سرحد پر دونوں ممالک کے تنازع کے بعد جس کے نتیجے میں 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ سلامتی کونسل کی رکنیت کے حصول کے لیے مخصوص طریقہ کار اختیار کرنا ہوتا ہے اور اگر بھارت سلامتی کونسل کا رکن بن گیا تو قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی۔

مزید پڑھیں: بھارت کے سلامتی کونسل میں انتخاب نے سوالات کو جنم دیا ہے، دفتر خارجہ

قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے واضح کیا تھا کہ بھارت کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کا موضوع تو زیر بحث ہے ہی نہیں کیونکہ اس کے لیے جو اصلاحات درکار تھیں وہ نہیں کی گئیں، لہٰذا اس کی نوبت ہی نہیں آئی۔

انہوں نے کہا تھا کہ غیر مستقل رکن کی بات کی جائے تو وہ بدلتے رہتے ہیں مثلاً جب سے ملک آزاد ہوا ہے تو سات مرتبہ ہندوستان سلامتی کونسل کا رکن رہا ہے اور سات مرتبہ ہی پاکستان بھی کونسل کا رکن رہا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے مزید کہا تھا کہ بھارت نے 2011 میں رکن بننے کی تیاری شروع کردی تھی اور اب ہم نے بھی 26-2025 میں آٹھویں مرتبہ رکن بننے کا اعادہ کیا ہے اور اس کے لیے لابی کر رہے ہیں کیونکہ اس کا الیکشن 2024 میں ہو گا۔

دوسری جانب نیویارک میں سفارتی مبصرین نے پاکستان کے لیے بھارت کے انتخاب کے مضمرات کے بارے میں کہا تھا کہ اس کی وجہ سے سلامتی کونسل میں کشمیر کی صورتحال پر بات چیت شروع کرنا مشکل ہوسکتا ہے۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ وہ پابندیوں پر اپنا زیادہ اثرورسوخ استعمال کرسکتا ہے۔

اس کے علاوہ مبصرین کا خیال ہے کہ بھارت، پاکستان کو شرمندہ کرنے کے لیے مختلف امور پر باضابطہ یا غیر رسمی بحث و مباحثے کا مطالبہ کرسکتا ہے یہاں تک کہ وہ اسلام آباد پر دباؤ بڑھانے کے لیے امریکا کو اپنے ساتھ شامل بھی کرسکتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں