اسلام آباد: اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں مقامی حکومتیں موجودہ کورونا وائرس بحران میں سب سے آگے ہیں تاہم پاکستان میں یہ کسی حد تک اپنے شہریوں سے دور ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یو این ڈی پی نے اپنے پہلے کووڈ 19– پاکستان سوشو اکنامک امپیکٹ اسیسمنٹ اینڈ رسپانس پلان میں کہا کہ اس کی وجہ سے ریاست اور معاشرے کے درمیان رابطہ کمزور ہوگیا ہے اور اس سے ملک میں پسماندگی، برادری پر مشتمل شکایات، تنازعات اور معاشرتی لچک پیدا ہوئی ہے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ پاکستان میں وبائی مرض پر خاطر خواہ ردعمل دینے کی کوششوں کے باوجود نتائج ناقص ہیں، وفاقی حکومت کے یکطرفہ فیصلوں سے تاجر اور کاروباری برادری غیر مطمئن ہیں جو ان کے کاروبار کو متاثر کررہے ہیں، اسی طرح صحت کے شعبے کے پیشہ ور افراد پی پی ای (ذاتی حفاظتی سازوسامان) کی عدم دستیابی اور ٹیسٹنگ کے مؤثر نظام کی کمی کو اجاگر کررہے ہیں۔

اس میں یہ بھی کہا گیا کہ آبادی کا غریب طبقہ پریشان ہے کیونکہ وہ روز مرہ کے ذریعہ معاش سے محروم ہوچکے ہیں کیونکہ ایک بڑی تعداد یومیہ اجرت پر کام کرتی تھی۔

اس رپورٹ کے مطابق وبائی مرض نے معاشرے کے تقریبا ہر طبقے کو متاثر کیا ہے اور حکمت عملی کو اپنانے پر اتفاق رائے کی عدم موجودگی سے، مایوسی، عدم تحفظ اور غیر یقینی صورتحال بڑے پیمانے پر پائی جاتی ہے۔

جاری ہونے والی یو این ڈی پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کا بحران ممالک کے اندر معاشرتی ہم آہنگی کو خطرہ بنارہا ہے کیونکہ اس سے کئی معاشروں میں لوگوں کے رویوں پر گہرا اثر پڑ رہا ہے اور اس سے لوگوں کی دماغی صحت متاثر ہورہی ہے۔

اس کے برعکس پاکستان معاشرتی ہم آہنگی اور معاشرتی لچک کے درمیان تعلقات کے لیے ایک بہت ہی نتیجہ خیز راستہ پیش کرتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق سیاسی روابط اور سماجی گفتگو، برادری کو بااختیار بنانے، شرکت اور قانون کی حکمرانی- یہ تینوں مل کر ریاست کے شہریوں سے تعلق کا تعین کرتے ہیں اور اس پھر یہ اس طرح کے بحران پر حکومت کے ردعمل کا تعین کرتا ہے۔

مزید یہ کہ بہت سارے چیلنجز میں سے ایک مقامی سطح پر وبائی مرض کے دوران ہم آہنگی، سمت، اور قابل رسائی معلومات کی عدم دستیابی بھی شامل ہے۔

یو این ڈی پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کوآرڈینیشن میکانزم اور پلیٹ فارم کی عدم موجودگی میں امدادی اور ہنگامی ردعمل کی کوششیں غیر مؤثر ہیں اور نقل اور وسائل کے ضیاع کا باعث بنی ہیں۔

ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ منتخب بلدیاتی حکومتیں نہ صرف وفاقی اور صوبائی فیصلوں پر عمل درآمد کرنے بلکہ ان کی مقامی سطح پر منتقلی میں بھی کارآمد ثابت ہوتی ہیں کیونکہ ان کا اعتماد آبادی کے اندرونی سطح پر ہوتا ہے۔

ماضی میں پاکستان میں ریاست اور معاشرے کے رابطے کو اکثر متشدد انتہا پسند منظم گروہوں نے متاثر کیا، جنہوں نے عوام کی شکایات کا فائدہ اٹھایا اور بحرانوں کے وقت معاشرے کے کمزور طبقات کو سہارا دینے میں ریاستی تعاون کو نظر انداز کیا۔

یہ خیال کیا جاتا ہے کہ منتخب بلدیاتی حکومتوں کی موجودگی نے حکومت اور عوام کے درمیان ایک مؤثر خلا پیدا کیا ہے جس نے موجودہ صورتحال کو خراب کردیا اور اس وجہ سے شہری، حکومتی فیصلوں پر اعتماد کھو رہے ہیں۔

عالمی طرز عمل کے مطابق پاکستان میں مقامی حکومتوں کو آئینی مینڈیٹ حاصل ہے کہ وہ کورونا وائرس جیسے ایمرجنسی اور وبائی صورتحال میں ایکٹو اسٹیک ہولڈر بنیں۔

ان کا ایک مشترکہ کام یہ ہے کہ ’کسی بھی آگ، سیلاب، طوفانی آفت، زلزلہ، وبائی بیماری یا دیگر قدرتی آفات کی صورت میں امدادی سرگرمیوں میں متعلقہ حکام کی مدد کریں اور ہنگامی منصوبہ بندی اور ریلیف فراہم کریں‘۔

مختصر یہ کہ فی الحال منتخب بلدیاتی حکومتیں خیبرپختونخوا، پنجاب اور بلوچستان میں موجود نہیں ہیں جبکہ فعال بلدیاتی حکومتیں اپنے آئینی کردار کی پاسداری کے لیے صرف سندھ اور اسلام آباد میں موجود ہیں۔

خیال رہے کہ تینوں صوبوں میں 2019 میں صوبائی حکومتوں نے بلدیاتی حکومت کو ختم کردیا تھا۔

تینوں صوبوں میں مقامی حکومتوں کی عدم موجودگی میں ضلعی انتظامیہ، صوبائی ادارے جیسے امدادی محکمے اور صوبائی آفات سے نمٹنے کی انتظامیہ یا پی ڈی ایم ایز، صحت، سلامتی اور امدادی اقدامات سے متعلق وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے فیصلوں، پالیسیوں اور احکامات پر متعلقہ دائرہ اختیارات کے تحت عمل درآمد کرا رہے ہیں۔

موجودہ بحران میں یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ کون کیا کر رہا ہے اور کون فیصلے اور وسائل کو کنٹرول کررہا ہے، اس سے مقامی حکومتیں اپنی ترجیحات کو قومی ترجیحات کے مطابق تیار کرسکیں گی۔

اگرچہ یہاں قومی ڈیزاسٹر میججمنٹ منصوبہ موجود ہے، یہ وبائی مرض مقامی حکومتوں کو ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر میجمنٹ اتھارٹیز جیسے ہنگامی انتظامی نظام کی ضرورت کو نمایاں کرتا ہے جو کمزور طبقات کی شناخت کرسکتی ہیں اور چیلنجز کا جلد جواب دے سکتی ہیں۔

رپورٹ میں زور دیا گیا کہ مقامی حکومتوں کو فنڈز کو متحرک کرنے کے لیے اپنی مناسب آمدنی یا ہموار مرکزی منتقلی کی ضرورت ہے۔

مزید یہ کہ خطرے والے علاقوں اور آبادیوں میں گہرائی تک جانے اور تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے بنیادی ضروریات کے ساتھ ساتھ سماجی-نفسیاتی ضروریات کا بھی پتا لگایا جاسکے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں