امریکا کےڈیموکریٹک صدارتی امیدوار اور سابق امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے مسلمانوں کے حوالے سے اپنے منشور میں مقبوضہ کشمیر سے متعلق بھارت کی متنازع قانون سازی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

جو بائیڈن نے انتخابی مہم کے سلسلے میں امریکا میں مقیم مسلمان برادریوں کے حوالے سے اپنے ایجنڈے میں کہا ہے کہ 'بھارت کی حکومت کو کشمیر کے عوام کے حقوق بحال کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے چاہیئیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'پرامن احتجاج کو روکنے، انٹرنیٹ کو بند کرنے یا سست کرنے جیسے اقدامات سے بھارت میں جمہوریت کمزور ہوئی ہے'۔

مزید پڑھیں: امریکا: صدارتی امیدوار نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ’صدر ٹوئٹی‘ کا لقب دے دیا

امریکی صدارتی امیدوار نے کہا کہ 'بھارت کی حکومت کی جانب سے آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزن اور سٹیزن شپ ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) متعارف کروانا مایوس کن ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ اقدامات سیکولرازم، کثیراللسانی اور بین المذاہب ہم آہنگی کی ملکی روایت کے بھی خلاف ہے'۔

مسلمانوں کے حوالے سے اپنے ایجنڈے میں انہوں نے کہا کہ 'امریکی مسلمان مسلم اکثریتی ممالک اور دیگر ممالک میں موجود مسلمانوں کے حوالے سے تشویش رکھتے ہیں'۔

جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ 'مغربی چین میں لاکھوں ایغور مسلمانوں کی جبری گرفتاری بھی قابل توجہ ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'میں صدر بن گیا تو سنکیانگ میں حراستی کیمپوں کے خلاف آواز اٹھاؤں گا اور ظلم کرنے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا'۔

امریکی صدارتی امیدوار نے کہا کہ 'میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ریاستی امتیاز اور مظالم سے امن و استحکام کو نقصان پہنچ رہا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: نینسی پلوسی نے جوبائیڈن کی امریکی صدارتی امیدوار کے طور پر توثیق کردی

دی وائر کی رپورٹ کے مطابق امریکی ہندوؤں کے ایک گروپ نے جو بائیڈن کی مہم میں مسلمانوں سے متعلق اپنے ایجنڈے میں بھارت کے خلاف بیان پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے جو بائیڈن پر زور دیا کہ وہ اس بیان پر نظرثانی کریں اور مطالبہ کیا کہ اسی طرح کا ایجنڈا امریکی ہندوؤں کے لیے بھی جاری کردیں۔

تاہم جو بائیڈن کی مہم کی انتظامیہ کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

خیال رہے کہ نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخاب کے لیے جہاں ٹرمپ اور ان کے حریف جو بائیڈن ایک دوسرے پر تنقید کر رہے ہیں وہیں مختلف برادریوں کی حمایت کے لیے بھی سرگرم ہیں۔

بھارت نے گزشتہ برس اگست میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ کی بندش سمیت تمام بنیادی حقوق کو سلب کرلیا تھا جس کے باعث کشمیریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

بعد ازاں دسمبر میں متنازع شہریت قانون متعارف کروایا گیا جس کے خلاف مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا جبکہ غیر جانب دار حلقوں کی جانب سے بھی اس قانون لو امتیازی قرار دیا گیا اور مسلمانوں کے مؤقف کی حمایت کی گئی۔

بھارتی حکومت نے رواں برس کے اوائل میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے ڈومیسائل قانون کو تبدیل کرکے مقامی آبادی کو حاصل اختیارات واپس لے لیے جس کو پاکستان اور کشمیریوں نے مسترد کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں