وزیر ہوا بازی کو عہدے سے برطرف کرنے کی درخواست مسترد

اپ ڈیٹ 01 جولائ 2020
درخواست گزار نے مؤقف اپنایا تھا کہ وزیر ہوا بازی نے انکوائری کے بغیر 262 پائلٹس پر جعلی لائسنس کا الزام لگایا — فائل فوٹو: ڈان نیوز
درخواست گزار نے مؤقف اپنایا تھا کہ وزیر ہوا بازی نے انکوائری کے بغیر 262 پائلٹس پر جعلی لائسنس کا الزام لگایا — فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کو عہدے سے برطرف کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وفاقی وزیر کے بیان سے ملک کا نقصان ہوا تو ایکشن لینا وزیر اعظم کا اختیار ہے۔

وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کو عہدے سے برطرف کرنے کی درخواست پر سماعت آج چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ کی سربراہی میں بینچ نے کی۔

مزید پڑھیں: 28 پائلٹس کے لائسنس جعلی ثابت، کیس کابینہ میں لے جانے کا فیصلہ

طارق اسد ایڈووکیٹ نے غلام سرور خان کی بطور وزیر برطرفی کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔

درخواست گزار نے مؤقف اپنایا تھا کہ وزیر ہوا بازی نے انکوائری کے بغیر 262 پائلٹس پر جعلی لائسنس کا الزام لگایا اور انہوں نے قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب میں کہا تھا کہ 30 فیصد پائلٹس کے لائسنس جعلی ہیں۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ قومی اسمبلی اجلاس میں غیر ذمہ دارانہ تقریر پر غلام سرور خان کو وزیر ہوا بازی کے عہدے سے برطرف کیا جائے اور وزیر اعظم کو حکم دیا جائے کہ وہ غلام سرور خان کو وفاقی وزیر کے عہدے سے برطرف کریں۔

اس کے ساتھ ساتھ درخواست میں کہا گیا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کو غلام سرور کی نااہلی کا معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجوانے کی ہدایت کی جائے اور پائلٹس کے جعلی لائسنس کی شفاف تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ نے بھی قومی ایئرلائن کی پروازیں معطل کردیں

درخواست گزار وکیل طارق اسد ایڈووکیٹ نے دوران سماعت کہا کہ 262 پائلٹس کے حوالے سے غلام سرور خان نے غیر ذمہ دارانہ بیان دیا اور ابھی پی آئی اے پر یورپ میں فلائیٹس پر 6 ماہ کی پابندی لگ گئی ہے۔

انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں مؤقف اپنایا کہ اگر کسی کی ڈگری جعلی تھی تب بھی وزیر کو چاہیے تھا خفیہ انداز میں کارروائی کرتے لیکن ان کی غیر ذمہ دارانہ بیان بازی سے دنیا بھر میں ملک کی جنگ ہنسائی ہوئی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے غلام سرور خان کو عہدے سے ہٹانے کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے درخواست مسترد کردی۔

چیف جسٹس نے وفاقی وزیر کے خلاف ایکشن وزیر اعظم کا اختیار قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر وفاقی وزیر کے بیان سے ملک کا نقصان ہوا تو ایکشن لینا وزیر اعظم کا اختیار ہے۔

مزید پڑھیں: بلاول کا طیارہ حادثے کی آزادانہ تحقیقات، وزیر ہوا بازی کے استعفے کا مطالبہ

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست کے حوالے سے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے تفصیلی آرڈر پاس کریں گے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے 8 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ ہم وفاقی وزیر کے احتساب کے آئینی طریقہ کار میں مداخلت سے پرہیز کررہے ہیں۔

اس فیصلے کے ساتھ ہی وفاقی وزیر غلام سرور کو فوری کام سے روکنے کے لیے حکم امتناع کی درخواست بھی مسترد کردی گئی۔

خیال رہے کہ 24 جون کو قومی اسمبلی میں کراچی مسافر طیارہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا تھا کہ 860 پائلٹس میں سے 262 ایسے پائے گئے جن کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: یورپی ممالک کیلئے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی

جس کے بعد 26 جون کو وزیر ہوابازی غلام سرورخان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ 'جن پائلٹس پر سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ 262 ہیں، پی آئی اے میں 141، ایئربلیو کے 9، 10 سرین، سابق شاہین کے 17 اور دیگر 85 ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ سارے مشتبہ ہیں، 121 پائلٹس ایسے ہیں جن کے فرانزک کرنے کے بعد پتا چلا کہ ان کا ایک پرچہ بوگس تھا اور ان کی جگہ کسی اور نے بیٹھ کر پرچہ دیا، دو بوگس پرچے والے پائلٹس 39، تین بوگس پرچے والے 21، 4 بوگس پرچے والے 15، 5 بوگس والے 11، 6 بوگس پرچے والے 11، 7 بوگس پرچے والے 10 اور 8 بوگس پرچے والے 34 پائلٹس ہیں جبکہ مجموعی پرچے 8 ہوتے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'سی پی ایل کی تعداد 109، اے ٹی پی ایل 153 ہیں، یہ سارے مشکوک لائسنس کے حامل ہیں، ان کی فہرست تمام متعقلہ اداروں کو بھیج دی گئی ہے'۔

غلام سرور خان نے ایوی ایشن کے 5 عہدیداروں کو برطرف کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'پی آئی اے کو 141 پائلٹس کی فہرست دی گئی، ایئربلیو کو 9 پائلٹس کی فہرست دی اور کہا کہ یہ مشکوک ہیں لیکن انہوں نے اس تاثر کو رد کیا، اسی طرح سرین کو بھی کہا گیا کہ ان پائلٹس کو پروازوں کی اجازت نہیں دی جائے'۔

مزید پڑھیں: کراچی طیارہ حادثہ: پائلٹ اور معاون کے ذہنوں پر کورونا سوار تھا، وزیر ہوا بازی

پائلٹس کے خلاف یہ قدم مئی 2020 میں کراچی میں پی آئی اے کے طیارے کو پیش آنے والے حادثے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے بعد اٹھایا گیا، جس میں کہا گیا تھا کہ جہاز کے پائلٹس نے معیاری طریقہ کار پر عمل نہیں کیا تھا۔

کراچی میں اس حادثے میں جہاز میں سوار 97 افراد جاں بحق ہوئے تھے جبکہ 2 افراد معجزاتی طور پر بچ گئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں