امریکا: ٹک ٹاک میں بچوں کی رازداری کی خلاف ورزی کے الزامات کی تحقیقات

اپ ڈیٹ 08 جولائ 2020
چین کی سوشل میڈیا ایپ کو چینی حکومت کے ساتھ معلومات شیئر کرنے کے الزامات پر سخت اسکروٹنی کا سامنا ہے۔ فائل فوٹو:شٹر اسٹاک
چین کی سوشل میڈیا ایپ کو چینی حکومت کے ساتھ معلومات شیئر کرنے کے الزامات پر سخت اسکروٹنی کا سامنا ہے۔ فائل فوٹو:شٹر اسٹاک

امریکی فیڈرل ٹریڈ کمیشن (ایف ٹی سی) اور ڈپارٹمنٹ آف جسٹس کی جانب سے انٹرویو کیے گئے دو افراد کا کہنا ہے کہ یہ دونوں ادارے ان الزامات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ مشہور ایپ ٹِک ٹاک بچوں کی رازداری کے تحفظ کے حوالے سے 2019 کے معاہدے پر عمل پیرا نہیں ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق یہ پیش رفت معروف شارٹ ویڈیو کمپنی کی راہ میں ایک نئی رکاوٹ ہے۔

ٹک ٹاک کو چینی کارپوریشن ہونے کی وجہ سے امریکا میں قومی سلامتی پر مبنی غیر ملکی سرمایہ کاری سے متعلق کمیٹی سے اسکروٹنی کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔

ایک روز قبل امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے چینی حکومت کے ساتھ معلومات شیئر کرنے کے الزامات پر ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے پر 'یقینی طور پر غور' کر رہی ہے۔

ٹک ٹاک کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی گئی تھی۔

میساچوسٹس ٹیک پالیسی گروپ کے ایک عملے اور ایک اور ذرائع نے بتایا کہ انہوں نے ایف ٹی سی اور محکمہ انصاف کے عہدیداروں کے ساتھ الگ الگ کانفرنس کالز میں حصہ لیا جس میں ان الزامات پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا کہ ٹِک ٹاک فروری 2019 میں اعلان کردہ معاہدے پر عمل کرنے میں ناکام رہا۔

سینٹر برائے ڈیجیٹل ڈیموکریسی، مہم برائے کمرشل فری چائلڈ ہوڈ اور دیگر افراد نے مئی میں ایف ٹی سی سے الزامات پر غور کرنے کو کہا کہ ٹک ٹاک 13 سال اور اس سے کم عمر کے صارفین کے بارے میں ویڈیو اور ذاتی معلومات کو ڈیلیٹ کرنے میں ناکام رہا ہے جس پر اس نے رضا مندی کا اظہار کیا تھا۔

مزید پڑھیں: امریکا کا ٹک ٹاک سمیت دیگر چینی ایپس پر پابندی لگانے پر غور

ٹِک ٹاک ترجمان نے رائٹرز نیوز ایجنسی کو بتایا کہ 'ہم اپنے تمام صارفین کی حفاظت کو سنجیدگی سے لیتے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ امریکا میں وہ '13 سال سے کم عمر کے صارفین کو محدود ایپ کا تجربہ فراہم کرتے ہیں، جس میں جو خاص طور پر کم عمر کے لیے تیار کردہ اضافی حفاظت اور رازداری سے متعلق تحفظات شامل ہیں'۔

کمرشل فری چائلڈ ہوڈ مہم کے منیجر ڈیوڈ موناہن نے بتایا کہ ایف ٹی سی کے عہدیدار، جنہوں نے ٹک ٹاک کے ساتھ معاہدہ کیا تھا اور محکمہ انصاف، جو اکثر ایف ٹی سی کے لیے عدالتی دستاویزات فائل کرتا ہے، نے گروپس کے نمائندگان سے ویڈیو پر اس معاملے پر بات چیت کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ 'ہماری گفتگو سے ایسا احساس ہوا کہ وہ ان دعوؤں پر غور کر رہے ہیں جو ہم نے اپنی شکایت میں اٹھائے ہیں'۔

ایک دوسرے شخص نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اس بات کی تصدیق کی کہ انہوں نے دونوں ایجنسیوں کے عہدیداروں سے ملاقات کی تھی تاکہ ان خدشات پر تبادلہ خیال کیا جاسکے کہ ٹک ٹاک نے رضامندی کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔

ایف ٹی سی نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا جبکہ محکمہ انصاف نے فوری طور پر اس حوالے سے کوئی بھی جواب نہیں دیا۔

نوجوانوں کی پسندیدہ ایپلی کیشن

ٹک ٹاک جس پر صارفین کو مختصر ویڈیوز بناتے ہیں، امریکی نوجوانوں میں تیزی سے مقبول ہوا ہے۔

کمپنی نے گزشتہ سال کہا تھا کہ امریکا میں ٹِک ٹاک کے 2 کروڑ 65 لاکھ ماہانہ ایکٹو صارفین میں سے 60 فیصد کی عمر 16 سے 24 سال ہے۔

امریکی پالیسی سازوں نے بھی ٹک ٹاک کے صارف کے ڈیٹا کو سنبھالنے پر قومی سلامتی کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹک ٹاک جیسی وہ ایپ جس میں ویڈیوز دیکھنے پر نقد انعام ملتا ہے

ان کا کہنا تھا کہ وہ چینی قوانین سے گھبراتے ہیں جس کے تحت مقامی کمپنیوں کو چینی کمیونسٹ پارٹی کی مدد اور تعاون کی ہدایت دی گئی ہے۔

پیرنٹ کمپنی بائٹ ڈانس کی ملکیت ٹِک ٹاک چین کی متعدد اداروں میں سے ایک ہے جو امریکا اور چین کے درمیان تجارت، ٹیکنالوجی اور کورونا وائرس وبائی امور سے متعلق کشیدگی سے متاثر ہورہا ہے۔

گزشتہ روز ٹِک ٹاک نے کہا تھا کہ وہ نیم خودمختار شہر کے لیے چین کے نئے قومی سلامتی کے قانون کے قیام کے بعد ہانگ کانگ سے نکل رہا ہے کیونکہ فیس بک، گوگل اور ٹوئٹر سمیت دیگر ٹیکنالوجی کمپنیوں نے اس خطے میں صارف کے ڈیٹا کے لیے حکومت کی درخواستوں پر عمل کرنا معطل کردیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں