امریکا: 17 سال بعد پہلی سزائے موت پر عملدرآمد آخری لمحات میں مؤخر

اپ ڈیٹ 14 جولائ 2020
ٹرمپ انتظامیہ نے فیصلے کو فوری طور پر ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا — فائل فوٹو / اے ایف پی
ٹرمپ انتظامیہ نے فیصلے کو فوری طور پر ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا — فائل فوٹو / اے ایف پی

امریکا کی ڈسٹرکٹ جج نے مجرمان کی سزائے موت پر عملدرآمد موخر کرنے کے نئے احکامات جاری کر دیے۔

امریکی خبر رساں ایجنسی 'اے پی' کے مطابق جج کی جانب سے یہ احکامات 17 سال بعد کسی مجرم کی سزائے موت پر عملدرآمد سے چند گھنٹے قبل جاری کیے گئے۔

ڈسٹرکٹ جج تانیا چُٹکان نے کہا کہ اب بھی چند قانونی مسائل ہیں جو حل طلب ہیں اور جائز قانونی عمل کو پورا کیے بغیر عوام کی خدمت نہیں کی جاتی۔

انہوں نے کہا کہ قیدیوں نے ایسے شواہد پیش کیے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کا سزائے موت کے لیے صرف پینٹوباربیٹل کے استعمال کے منصوبے سے شدید تکلیف کا غیر آئینی خطرہ موجود ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قیدیوں نے متبادل کی نشاندہی کی ہے جس سے سزائے موت پر عملدرآمد کے آغاز میں افیون یا پریشانی دور کرنے والی دوا کا استعمال یا دوسرے طریقے کا ایک ساتھ استعمال شامل ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے فیصلے کو فوری طور پر ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا جس میں سزائے موت پر عملدرآمد کی اجازت کی درخواست کی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا: 17 برس بعد مجرموں کی سزائے موت پر عملدرآمد کا شیڈول جاری

واضح رہے کہ 17 جون کو امریکی اٹارنی جنرل نے فیڈرل بیورو آف پرزنز (وفاقی قیدی بیورو) کو سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کی سزائے موت پر عملدرآمد کے لیے احکامات جاری کیے تھے۔

امریکی محکمہ انصاف کا کہنا تھا کہ امریکی اٹارنی جنرل ولیم بار نے 2003 سے سزائے موت کے منتظر قیدیوں سے متعلق احکامات جاری کیے۔

قیدیوں کی سزائے موت پر عملدرآمد کے لیے جاری شیڈول کے مطابق 13 جولائی کو ڈینیئل لی، 15 جولائی کو ویسلی پورکی، 17 جولائی کو ڈسٹن ہنکن اور 28 اگست کو کیتھ نیلسن کی سزاؤں پر عمل ہونا تھا۔

ڈینیئل لوئس لی کو 1996 میں آرکنساس میں ہتھیاروں کے ڈیلر، اس کی اہلیہ اور 8 سالہ بیٹی کو قتل کرنے کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا میں 16 سال بعد سزائے موت بحال

خیال رہے کہ امریکا میں زہریلے ٹیکے کے ذریعے سزائے موت دینے کا اصول یہ ہے کہ ایک ٹیکا ایک فرد کو لگایا جاتا ہے اور اسے جو لگاتا ہے اس کا چہرہ چھپا کر رکھا جاتا ہے۔

بیشتر امریکی ریاستوں میں کوئی فرد ہی اس زہریلے ٹیکے کو قیدیوں کو لگاتا ہے جبکہ کچھ جگہ مشینوں کو بھی استعمال کیا گیا، تاہم تکنیکی خرابیوں کے باعث اسے ختم کردیا گیا۔

عام طور پر زہریلے ٹیکے کے لیے پینتھاہول کو استعمال کیا جاتا ہے جو عام طور پر آپریشن کے دوران مریضوں کے لیے بے ہوش کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے تاہم اس کی مقدار 150 ملی گرام رکھی جاتی ہے، جبکہ سزائے موت کے قیدی کے لیے یہ مقدار 5 ہزار ملی گرام ہوتی ہے، جبکہ پوٹاشیم کلورائیڈ اور دیگر زہروں کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں