گلبہار میں منہدم 7 منزلہ عمارت کی تعمیر کے لیے ایس بی سی اے نے رشوت لی، پولیس

اپ ڈیٹ 15 جولائ 2020
تفتیشی افسر نے ایس بی سی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر عمران احمد عرف شیخ اور عمارت کے مالک جاوید کو واقعے کا مرکزی ملزم قرار دیا — فائل فوٹو:ڈان
تفتیشی افسر نے ایس بی سی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر عمران احمد عرف شیخ اور عمارت کے مالک جاوید کو واقعے کا مرکزی ملزم قرار دیا — فائل فوٹو:ڈان

کراچی: گلبہار میں کثیر المنزلہ عمارت کے گرنے سے متعلق کیس میں پولیس نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے کچھ عہدیداروں کے خلاف جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے چارج شیٹ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ رشوت کے عوض غیر قانونی تعمیر کی اجازت دی گئی تھی۔

واضح رہے کہ رواں سال مارچ کے مہینے میں کثیر المنزلہ عمارت گرنے سے 27 افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

اس کیس کے تفتیشی افسر نے ایس بی سی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر عمران احمد عرف شیخ اور عمارت کے مالک جاوید کو مرکزی ملزم قرار دیا جبکہ ڈپٹی ڈائریکٹر سرفراز جمالی، اسسٹنٹ ڈائریکٹر مقصود قریشی اور بلڈنگ انسپکٹر عرفان کو غفلت برتنے اور چوری کرنے کا ملزم ٹھہرایا۔

تاہم آئی او نے اس وقت کے کچی آبادی کے ڈائریکٹر محمد رقیب اور اس وقت کے ڈائریکٹر لیاقت آباد عامر کمال جعفری اور بلڈنگ انسپکٹر عابد حسین بھٹو کو شواہد کی عدم دستیابی پر چارج شیٹ میں شامل نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: کراچی میں رہائشی عمارت زمین بوس، 14افراد جاں بحق

تفتیشی افسر نے جوڈیشل مجسٹریٹ (وسطی) کے سامنے چارج شیٹ پیش کی اور عمارت کے مالک کے تین بیٹوں اور اہلیہ جبکہ ایس بی سی اے ملازم لطافت مرزا کو مفرور ظاہر کیا۔

چارج شیٹ میں کہا گیا کہ ایس بی سی اے نے رشوت لینے کے بعد 74 مربع گز کے پلاٹ پر سات منزلہ عمارت کی تعمیر کی اجازت دی تھی اور مزید کہا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عمران نے جاوید سے اس عمارت کی ہر منزل کی تعمیر کے خلاف ایک لاکھ 50 ہزار روپے وصول کیے تھے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ ایک مرحلے پر ایس بی سی اے نے عمارت کی تیسری منزل کو منہدم کردیا تھا اور اس کے بعد ڈپٹی ڈائریکٹر نے عمارت کے مالک سے مزید ایک لاکھ 50 ہزار روپے وصول کیے تھے اور تعمیرات کو جاری رکھنے کی اجازت دی تھی۔

چارج شیٹ میں کہا گیا کہ علاقے کے لوگوں کے بیانات کے مطابق لطافت مرزا، ایس بی سی اے کا نمائندہ بھی تھا اور وہ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف علاقے سے رقم جمع کرتا تھا۔

تاہم آئی او نے کہا کہ وہ اس کا سراغ اور اس کے بارے میں مزید معلومات حاصل نہیں کرسکے ہیں۔

آئی او نے چارج شیٹ میں کہا ہے کہ اس وقت لیاری ٹاؤن میں بطور ڈائریکٹر تعینات محمد رقیب نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایس بی سی اے کے ڈائریکٹر جنرل نے 13 نومبر 2019 کو کچی آبادی سیل تشکیل دیا تھا اور انہیں سیل کا ڈائریکٹر بنایا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ڈی جی نے رواں سال مارچ میں یہ سیل ختم کردیا تھا، اس کے علاوہ ڈائریکٹر لیاقت آباد عامر جعفری نے کچی آبادی اور عمارت کے بارے میں تفصیلات سے متعلق اپنے دفتر کو ایک خط بھیجا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: گلبہار میں عمارت گرنے سے ہلاکتوں کی تعداد 27 ہوگئی

چارج شیٹ میں کہا گیا کہ محمد رقیب کے مطابق زیر بحث علاقہ کچی آبادی میں شامل نہیں ہوتا جبکہ عامر کمال جعفری نے یہ بھی کہا کہ یہ علاقہ ایس بی سی اے کے دائرہ اختیار میں آتا ہے اور یہ بھی بتایا کہ کچی آبادیوں میں غیر قانونی تعمیرات کو بھی کنٹرول کرنا ایس بی سی اے کی ذمہ داری ہے۔

آئی او نے بتایا کہ منہدم عمارت کا مالک جیل میں ہے اور ڈپٹی ڈائریکٹر عمران اور ایس بی سی اے کے دیگر نامزد اہلکار ضمانت پر ہیں۔

استغاثہ کے مطابق مارچ میں گل بہار میں کثیر المنزلہ عمارت گرنے سے خواتین اور بچوں سمیت 27 افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور 23 زخمی ہوئے تھے۔

واقعے سے متعلق رضویہ تھانے میں درج ایف آئی آر کے مطابق عمارت محمد جاوید خان نامی شخص کی ملکیت ہے جو کنسٹرکشن کا کام کرتے ہیں اور مذکورہ گراؤنڈ پلس 4 عمارت بھی انہوں نے ہی تعمیر کی تھی۔

ایف آئی آر کے مطابق سرکاری محکموں کے افسران نے بھی عمارت کی تعمیر کے حوالے سے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔

مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 109، 427، 337، 119 اور 322 کو شامل کی گئیں۔

تبصرے (0) بند ہیں