اگر گزشتہ چند سالوں کا ذکر کریں تو پاکستان سمیت دنیا بھر میں بہت ساری تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں، جن میں معاشی معاملات ہیں، ماحولیات سے متعلق مسائل ہیں، ممالک کے درمیان نئے بنتے اور پرانے ٹوٹتے اتحاد ہیں، لیکن ان سب میں ایک اہم ترین تبدیلی اظہارِ رائے کے حوالے سے دیکھنے کو مل رہی ہے۔

میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور تنقید کی آزادی تیزی سے سلب کی جارہی ہے۔ لیکن اب تک بیانیے کو قابو کرنے کوشش کوئی زیادہ بارآور نہیں ہوئی کیونکہ اگر کوئی خبر ٹی وی چینل یا اخبار میں جگہ حاصل کرنے میں ناکام رہتی تو وہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ کے ذریعے عوام تک پہنچا دی جاتی تھی، تاہم اب تو سوشل میڈیا پر بھی قدغن لگانے کی بات ہو رہی ہے۔

وطنِ عزیز میں میڈیا کی ترقی کا سفر 2 دہائیوں پر محیط ہے۔ اخبار کی جگہ جب ٹی وی چینلز نے لی تو ہر ادارے نے اپنی بساط کے مطابق پُرکشش تنخواہوں اور مراعات پر پیشہ ور افراد اکٹھے کیے۔ پھر مسابقت کی دوڑ میں تفتیشی خبریں ڈھونڈ نکالنے والے صحافیوں کی مانگ بڑھ گئی۔ یہاں تک کہ ریٹینگ کے چکر میں پروگرام کے درمیان گرما گرما بحث یا لڑائی کرنے والے اینکروں کی چاندی ہوگئی۔

یقیناً مالی اجر کے لالچ میں کچھ غلطیاں بھی ہوئی ہوں گی، عزتیں بھی اچھلی ہوں گی لیکن جب احتساب شروع ہوا تو معاشرے میں سدھار بھی آیا۔ قوتِ برداشت میں اضافہ ہوا تو ملک میں ہم آہنگی بھی بڑھی۔ کیا سیاستدان اور کیا ادارے، تنقید پر کوئی خفا نہیں ہوتا تھا، بلکہ بڑے تحمل سے اپنا مؤقف پیش کیا جاتا تھا۔

معاشرے نے میڈیا کو اتنی طاقت دی کہ اس نے نہ صرف مسائل اجاگر کرکے ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کیا بلکہ پاکستان کا کیس بین الاقوامی فورمز پر بڑی جانفشانی سے لڑا، لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ برداشت میں کمی آتی چلی گئی اور صورتحال یہ ہوئی کہ جس نے مخالف لفظ منہ سے نکالا اس پر کفر کا فتوی لگ گیا، جس نے سوال اٹھایا اسے ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے دیا اور یوں آزاد میڈیا بھی کھٹکنے لگا۔

مزید پڑھیے: میڈیا سے تعلق رکھنے والے دادا پوتی کی کہانی

سیاست کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے۔ اقتدار کے لیے آسمان سے تارے توڑ کر لائے جانے کے وعدے کیے جاتے ہیں۔ دیوتا تخلیق کیے جاتے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد جب دیوتاؤں کے عیوب ظاہر ہونا شروع ہوجائیں تو اچھے پہلو اجاگر کیے جاتے ہیں۔ عوام کو دیگر معاملات میں مصروف رکھا جاتا ہے تاکہ مسائل سے ان کی توجہ ہٹ جائے اور وہ اپنے معاملات میں مصروفت ہوجائیں۔

لیکن کورونا اور اس سے پہلے کے گھمبیر معاشی مسائل نے میڈیا منیجرز کے لیے کچھ نہیں چھوڑا۔ جب کارکردگی گراوٹ کا شکار ہوئی تو نام نہاد اشتہاری مہمات شروع کردی گئیں۔ جس سے عوامی اضطراب میں اضافہ ہوا۔

جب کسی زرعی ملک میں عین سیزن کے وقت گندم 1400 روپے سے اچانک 2100 روپے من پہنچ جائے اور چینی 60 روپے سے 90 روپے فی کلو تک پہنچ جائے اور پیٹرول ایک دن میں 25 روپے مہنگا ہوجائے تو بے روزگار عوام کی چیخیں تو نکلیں گی۔

جب ہر طرف اقربا پروری ہو، ہر طرف مصلحتیں ہوں۔ اپنوں اور بیگانوں کے لیے دوہرے معیار اور دوہرے نظام ہوں تو بے چینی تو پھیلے گی۔

پھر جب اس ساری صورتحال کا عکس میڈیا رپورٹس میں نظر آیا تو ناعاقبت اندیش منیجرز نے اپنی غلطیوں پر نظر ثانی کرنے یا اس کی تصحیح کے بجائے سارا الزام یہ سمجھے بغیر میڈیا پر ڈال دیا کہ ماضی میں جب بھی ایسی کوئی کوشش ہوئی تو معاشرے میں سخت بگاڑ پیدا ہوا ہے۔ نفرت فروغ پائی اور ریاست اندر سے کمزور ہوئی۔

ہماری تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی گھٹن کا ماحول پیدا ہوا تو معاشرے میں بے چینی بڑھی ہے اور سڑکوں پر نکل پر عوام نے اس کا واضح اظہار بھی کیا ہے، غرض یہ کہ ایسا کرنے سے کبھی بھی بہتری کا کوئی پہلو نہیں نکلا۔

اب بھی دیر نہیں ہوئی، ہمیں یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک میں حالات کوئی زیادہ اچھے نہیں۔ عوام جذباتی تقریروں یا مخالفین پر الزام دھرنے کی بجائے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ انہیں روزگار، تعلیم اور صحت کی سہولیات کی ضرورت ہے، اس لیے عوامی بے چینی کو دُور کرنے کے لیے فوری معاشی استحکام درکار ہے۔

اگر عوام کو اپنی ہی پیدا کردہ گندم، چینی اور دیگر اجناس ٹھیک قیمت پر فراہم کردی جائے اور ان تمام لوگوں کو فوری طور پر سزا دے دی جائے جنہوں نے چونا لگا کر عوام کو لوٹا ہے تو یقین کیجیے کہ آپ کی واہ واہ ہوجائے گی، اور ایسا کرنے کے لیے آپ کو کسی پر کوئی پابندی لگانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

حکومت، اپوزیشن اور عوام، اگر ان تینوں نے اپنی ذاتی انا اور مفادات کو بالائے طاق رکھ کر کام کرلیا تب ہی یہ ملک ترقی کرے گا۔ اور اگر حالات ایسے ہی رہے تو ہمیں کسی دشمن کی ہرگز ضرورت نہیں ہوگی۔

مزید پڑھیے: اب سمجھ آیا کہ حفیظ شیخ میڈیا کے سامنے کیوں نہیں آتے؟

لیکن اگر فیصلہ کر ہی لیا ہے کہ ملک کے تمام مسائل کا حل صحافی کی آواز دبانے میں ہے اور آزاد میڈیا ملکی مفاد میں نہیں ہے، اور سچ کہنے والا صحافی آپ کو کھٹکتا ہے تو پھر اس کا کوئی معقول اور مؤثر حل تلاش کیجیے۔ کیونکہ یاد رکھیے کہ آپ کسی صحافی کو جبراً نوکری سے تو فارغ کرواسکتے ہیں، لیکن اس کو سچ بولنے سے نہیں روک سکتے۔

وہ بھوکا رہے گا، مار کھائے گا لیکن سچ سے نہیں ہٹے گا۔ اگر آپ نے بیانیے کو کنٹرول کرنا ہے تو پھر صحافیوں کو متبادل پیشہ فراہم کردیں۔ تمام نجی میڈیا کو بند کرکے اس کے سارے عملے کو شعبہ تعلقات عامہ یا دوسرے متعلقہ سرکاری اداروں میں کھپا دیں۔ قلم سے جہاد کرنے والے نہ لینڈ کروزر مانگتے ہیں نہ پلاٹ، انہیں تو پنشن تک نہیں ملتی۔

اس بات کو سوچیے کہ اگر آگے چل کر ہمیں برائلر میڈیا کے مصنوعی پن کا احساس ہوگیا تو پھر کیا ہوگا؟ صحافیوں کی یہ پود دو دہائی کی جدوجہد کے بعد وجود میں آئی ہے، اور اگر کل آپ کو دوبارہ ان کی ضرورت پڑی اور آپ چراغ لے کر بھی ڈھوندیں گے تو شاید یہ اصیل نہیں ملیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں