ایک معاشرہ اپنے رہنے والے افراد و طبقات کے ساتھ رسم و رواج اور فکری رجحانات کا بھی آئینہ دار ہوتا ہے۔ یہ تمام خواص اسے دوسری اقوام سے منفرد بناتے ہیں لیکن ایک فکری طرز جو تقریباً ہر معاشرے میں موجود ہے اور جس پر بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ عمل کیا جاتا ہے وہ ہے خواتین کے حوالے سے متعصبانہ سوچ۔

’اوہ! پھر وہی گھسی پٹی بات، وہی مظلوم عورت ہونے کا رونا‘، میں جانتی ہوں کہ تحریر کے اس حصے پر پہنچتے ہی کئی قارئین کا یہ ردِعمل ہوگا۔

حضور بالکل درست، یہ وہی عورت ذات کا رونا ہے جو صدیاں گزر جانے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتا اور ہو بھی کیسے کہ جب دنیا کی آدھی آبادی کے ساتھ روا ہتک آمیز رویے میں کوئی فرق نہیں آیا۔

’اوہ! لیکن ہمارے معاشرے میں تو عورت کو ماں، بہن اور بیٹی کا درجہ دیا گیا ہے۔‘

مزید پڑھیے: !عورت کی توہین -- پاکستان کی نیشنل ہابی

یہ بھی درست ہے لیکن معاشرے کے تفویض کردہ ان درجات کی حقیقت بھی اتنی ہی ہے کہ ان کا احترام معاشرہ اپنی سہولت کے پیش نظر کرتا ہے، یعنی جہاں ضرورت پیش آئی ان رشتوں کا احترام رکھا اور جہاں ضرورت پڑی وہاں اپنے مخالفین کو دھول چٹانے کے لیے اسی ماں، بہن اور بیٹی کے ساتھ نہ صرف ناروا سلوک رکھا بلکہ اپنے مفاد کے لیے جیسے چاہا ان کا استعمال کیا۔

چلیں اسے بھی چھوڑیے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ تو جہلا کا طرزِ عمل ہے، 'مہذب' اور 'پڑھے لکھے' افراد ایسی گری ہوئی باتیں نہیں کرتے۔ لیکن میں صرف سمجھتی نہیں بلکہ جانتی بھی ہوں کہ پڑھے لکھے لوگ بھی اپنے مخالف کو نیچا دکھانے کی خاطر اس کی 'مردانگی' کو زنانیت کا طعنہ دیتے ہوئے کیسا فخر اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔

’لوجی یہ کدھر ہوتا ہے؟‘

تو جناب زیادہ پرانی بات نہیں ہمارے محبوب میوزک بینڈ 'جنون' کے لیڈ گٹار نواز سلمان احمد نے چند دن پہلے ہی اپنے عقلی ظرف کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے حوالے سے ایک ٹویٹ فرمائی جس میں بلاول کی تصویر فوٹو شاپ کرکے اسے زنانہ رنگ دیا گیا اور تضحیک آمیز انداز میں حوالہ دیا گیا۔

مزید ستم یہ کہ شدید تنقید کے باوجود اس بدزوقیت پر نادم ہونے یا معذرت خواہ ہونے کے بجائے ابتدائی طور پر تو اس ٹوئیٹ پر قائم رہے اور تاویلیں پیش کرتے رہے، لیکن جب صورتحال قابو سے باہر ہونے لگی تو انہیں بالآخر اس ٹوئیٹ کو ڈیلیٹ کرنا پڑا۔

میں یہاں ہرگز یہ نہیں کہنا چاہ رہی کہ بلاول بھٹو پر تنقید نہیں ہوسکتی یا ان سے کوئی اختلاف نہیں کرسکتا، بلکہ ان پر تنقید بھی ہوسکتی ہے اور ان سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کا ایک معقول طریقہ ہونا چاہیے۔ اگر سیاسی اعتبار سے انہوں نے کوئی غلطی کی ہے یا بطور حکمران ان سے کوئی غلط فیصلے ہوئے ہیں تو پھر دلیل کے ساتھ ان مسائل پر بات ہونی چاہیے۔

لیکن شاید خودساختہ روشن خیال صوفی سلمان احمد کے لیے مخالفین خاص کر اپنی محبوب سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مخالفین کو سوشل میڈیا پر ٹرول کرنا کچھ نیا نہیں۔ لیکن سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ آخر کسی مرد کو نیچا دکھانے کے لیے یا اسے کمزور ثابت کرنے کے لیے آخر زنانیت کا ہی طعنہ کیوں دیا جاتا ہے؟

'چوڑیاں پہن رکھی ہیں'،

'عورتوں کی طرح ٹسوے نہ بہاؤ'

اس طرح کے جملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ منافق پدرسری معاشرہ عورت ذات کو کتنا کمتر سمجھتا ہے، اب چاہے آپ عورت کو دیوی کہیں یا مادرِ ملّت کا لقب دیں لیکن اگر آپ کی فکری سوچ کا یہ معیار ہے کہ اپنے مخالف کو آپ عورت جیسا کہہ کر اپنے طور پر اس کی تذلیل کررہے ہیں تو آپ خود کو روشن خیال کہنا چھوڑ دیں اور خدارا اپنی تنگ نظری پر پردہ ڈالنے کے لیے اس طرزِ عمل کو طنز ومزاح تو ہرگز نہ کہیں۔ یہ ایک بیمار صنف مخالف ذہنیت کا آئینہ دار ہے اور ہرگز ایک روشن خیال معاشرے کی نمائندگی نہیں کرتا۔

مزید پڑھیے: عورت، عزت اور ووٹ

عمومی طور پر لوگوں میں یہ رجحان پایا جانا سمجھ میں آتا ہے کہ جناب شعور نہیں، تعلیمی نظام ٹھیک نہیں، خاندانی نظام میں خامیاں ہیں وغیرہ وغیرہ، لیکن جب عوامی نمائندے خواہ وہ سیاسی ہو، شو بزنس سے تعلق رکھتے ہوں یا کوئی بھی جب عوامی پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے ایسے نظریات کا پرچار کرے تو سوچنا لازم ہے کہ یہ معاشرے کے کس طبقے کی نمائندگی کررہے ہیں اور یہ کس فکری رجحان کی پیروی کررہے ہیں؟

ہمیں بار بار اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عورت ہونا کوئی تذلیل کی بات نہیں اور نہ ہی آج تک عورت نے خود کو کسی محاذ پر کمزور دکھایا ہے۔ ہمیں بحیثیت مجموعی اپنی سوچ کے دائرہ کار کو بڑھانے کی ضرورت ہے اور اگر کسی حریف سے اختلاف کرنا ہی ہے تو اس کی کارکردگی سے کریں اور عقل و منطق کے ساتھ کریں، نہ کہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ اس میں عورت جیسی خصوصیات ہیں، اگر کوئی بھی ایسا کرے گا تو وہ پوری دنیا کو یہ بتائے گا کہ وہ عورت کی عزت نہیں بلکہ اس کی تضحیک کرنے والوں میں شامل ہے.

تبصرے (0) بند ہیں