لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔

15 ستمبر تک اسکولوں کو شاید دوبارہ کھلنے کی اجازت دے دی جائے۔ ہمیں یہ اندازہ لگانے میں ذرا بھی دقت پیش نہیں آتی کہ اس وقت تک ہمارے پاس نہ تو کورونا وائرس کی ویکسین دستیاب ہوگی اور نہ ہی ایسی مؤثر ادویات موجود ہوں گی جو وائرس کی علامات اور انسانی صحت پر اس کے اثرات کی شدت کو کم کرنے کے ساتھ طبیعت کی فوری بحالی کو یقینی بناسکتی ہوں۔

تو کیا ان حالات میں اسکولوں کو کھولنے کی اجازت دینا ٹھیک ہے اور طلبا، اساتذہ اور انتظامیہ میں شامل افراد کے تحفظ کے لیے کن ایس او پیز کو اختیار کیا جائے؟

ہمیں نہیں معلوم کہ ویکسین کب دستیاب ہوگی یا یہ کبھی دستیاب ہو بھی پائے گی یا نہیں۔ 15 ستمبر تک اسکولوں کی بندش کو 6 ماہ گزر جائیں گے۔ اگر ویکسین دستیاب نہیں ہوپاتی تو ہم مزید کتنا عرصہ اسکولوں کو اسی طرح بند رکھ سکتے ہیں؟

پاکستان کے پاس ٹیکنالوجی کا انفرااسٹرکچر کوئی اتنا اچھا نہیں ہے، ہمارے ہاں اسکول جانے والے بچوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور ان میں سے اکثر بچے کم اور متوسط آمدن والے ایسے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جو انٹرنیٹ سروس حاصل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اس لیے اگر اسکول بند رہتے ہیں تو ہمارے بچوں کی اکثریت پڑھائی سے محروم رہے گی۔

مزید پڑھیے: آئندہ چند سال یونیورسٹیوں کے لیے ہنگامہ خیز کیوں ہوں گے؟

ہم پڑھائی کا عمل بحال کرنا چاہتے ہیں۔ مگر زیادہ تر بچے اسکول کھلنے کے بعد ہی اپنی تعلیمی سرگرمی کا دوبارہ آغاز کرسکتے ہیں۔ اگرچہ ٹی وی، ریڈیو اور انٹرنیٹ کے ذریعے تعلیمی عمل جاری رکھنے کے لیے سرکاری و نجی شعبے کی جانب سے اقدامات اٹھائے گئے ہیں لیکن وہ (مذکورہ وجوہات کی بنا پر) زیادہ تر پاکستانی بچوں کو مناسب انداز میں پڑھائی کے مواقع فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ چنانچہ ہم تعلیمی عمل کی بحالی کو اسکولوں کی بندش ختم کرنے سے مشروط تصور کرتے ہیں۔ دیگر ایسے ممالک میں صورتحال مختلف ہوسکتی ہے جہاں انٹرنیٹ کی رسائی اور دیگر گھریلو ماحول سے جڑے مسائل مختلف ہیں۔

ہم یہ دلیل پیش کرسکتے ہیں کہ بچوں اور اساتذہ کی صحت اور تحفظ کی اہمیت سب سے بڑھ کر ہے اس لیے ہمیں ویکسین کی دستیابی تک کسی قسم کا کوئی رسک نہیں لینا چاہیے۔ اگرچہ ویکسین کے حوالے سے کچھ حوصلہ افزا خبریں سننے کو مل تو رہی ہیں لیکن ہم یہ اندازے نہیں لگاسکتے ہیں کہ ایک مؤثر ویکسین وسیع پیمانے پر دنیا بھر میں دستیاب ہوگی اور آیا وہ قابلِ استطاعت ہوگی بھی یا نہیں؟

تو کیا اب غیر معینہ مدت تک تعلیمی سرگرمیوں کو بند رکھا جائے؟ بہت سے ممالک کا یہ مؤقف سامنے آ رہا ہے کہ ہمیں ہر ممکن احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے بندش کے خاتمے کی طرف قدم اٹھانا ہوگا لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ہوگی کہ اس طرح ہمارے بچوں اور اساتذہ میں وائرس کی منتقلی کا خدشہ پہلے سے بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔

اس لحاظ سے منظرنامہ کچھ یوں سامنے آتا ہے کہ اگر وبائی منتقلی کی شرح قابو میں رہتی ہے تو ضروری ایس او پیز کے ساتھ اسکول کھول دیے جائیں۔ یہ خیال خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک کے لیے اہمیت رکھتا ہے جہاں زیادہ تر بچوں کی پڑھائی کمرہ جماعت اور اساتذہ اور دیگر طلبا کی موجودگی میں ہی ممکن ہے۔

اگر اس حوالے سے رسک کی بات کریں تو اس کی سطح بھی مختلف حالات میں مختلف ہوگی۔ مثال کے طور پر سرکاری اور کم فیس والے نجی اسکول اضافی احتیاطی سامان (مثلاً ماسک، سینیٹائزر، ہاتھ دھلوانے کی سہولت) فراہم کرنے کی محدود صلاحیت رکھتے ہیں۔ بہت سے اسکولوں میں گنجائش سے زیادہ بچے پڑھتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں عام طور پر ایس او پیز پر عمل کروانا آسان کام نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں جہاں بالغ افراد جسمانی دُوری کو برقرار نہیں رکھ پا رہے تو ایسی صورت میں چھوٹے بچوں کے لیے تو اس پر عمل تقریباً ناممکن ہوگا۔

مزید پڑھیے: علم کی 'آن لائن' شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب!

عالمی وبا کو 6 ماہ گزر چکے ہیں لیکن ہماری ٹیسٹنگ کی صلاحیت کا عالم یہ ہے کہ ہم ایک دن میں بمشکل 20 ہزار ٹیسٹ کر رہے ہیں۔ بالفرض اگر تعلیمی اداروں میں وبا پھوٹنے کا شبہ ہوتا ہے یا پھر واقعتاً ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں تو کیا ہم تواتر کے ساتھ طلبا اور اساتذہ کے ٹیسٹ کرنے، پورے پورے اسکولوں اور یونیورسٹیوں کا ٹیسٹ اور اسے قرنطینہ کرنے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتے ہیں؟

چنانچہ بندش ختم کرنے سے پاکستان کے زیادہ تر اسکولوں میں زیرِ تعلیم بچوں اور اساتذہ میں مرض کی منتقلی کا خدشہ غیر معمولی حد تک بڑھ جائے گا اور اگر طلبہ اور اساتذہ غیر محفوظ ماحول میں رہے تو گھر بیٹھے بالغ افراد بھی اس سے محفوظ نہیں رہیں گے۔

لہٰذا اسکول نئے طریقوں کو استعمال کرسکتے ہیں اور ایسی پالیساں اپنا سکتے ہیں جن کے تحت

  • ایک دن چھوڑ کر ایک دن کلاسز لی جائیں (تاکہ کسی بھی دن اسکول میں بچوں کی تعداد زیادہ نہ ہو)
  • جہاں ممکن ہو وہاں ڈیسکوں کے درمیان فاصلہ رکھا جائے
  • اگر اسکولوں میں بڑے میدان ہیں اور موسم اجازت دیتا ہے تو کلاسوں کا انعقاد وہاں کیا جائے
  • ایسی ہر طرح کی سرگرمی سے باز رہا جائے جس میں مجمع اکٹھا ہو، جیسے صبح کی اسمبلی
  • طلبہ کی ٹولیوں کو آپس میں ملنے جلنے سے روکنے کے لیے تمام طلبہکو ایک ساتھ لنچ بریک نہ دیا جائے اور
  • زیادہ تر اسپورٹس اور سماجی سرگرمیوں کو روک دیا جائے۔

اس سب کے لیے اسکولوں کو بہت زیادہ خودمختاری درکار ہے تاکہ وہ یہ فیصلہ کرسکیں کہ دستیاب حالات میں کون سے طریقے ان کے لیے بہتر ثابت ہوسکتے ہیں۔ کئی اسکولوں میں بڑے بڑے میدان بھی ہیں، وہ ان میدانوں کو کس طرح مؤثر انداز میں استعمال میں لاسکتے ہیں؟

ان فیصلوں کا اختیار مقامی اسسٹنٹ ایجوکیشن افسران، ہیڈ ٹیچرز اور اساتذہ کے پاس ہونا چاہیے نہ کہ افسرانِ بالا کے پاس۔ چنانچہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ تمام تر متعلقہ معلومات اور آپشن مقامی حکام کو دستیاب ہو لیکن پھر مؤخر الذکر کے پاس انہیں اپنے حالات کے مطابق ڈھالنے کی آزادی ہونی چاہیے۔

مزید پڑھیے: آن لائن پڑھانے کا میرا اب تک کا تجربہ

کم فیس والے نجی اسکول زیادہ تر کسی ایک کی ملکیت ہوتے ہیں اور ان میں اختیارات کا مسئلہ درپیش نہیں ہوتا۔ یہاں ایس او پیز پر عمل کو یقینی بنانے کے لیے ہماری نگرانی کی صلاحیت کے مسئلے کا سامنا ہوگا۔ سرکاری اسکولوں کے لیے مسئلہ اس کے بالکل برعکس ہوگا۔ ہمارے ہاں کی حکومتی بیوروکریسی کو مدِنظر رکھیں تو پائیں گے کہ مقامی حکام کے پاس اپنی الگ پالیسی مرتب دینے کی آزادی نہ ہونے کے برابر ہے۔

کیا بیوروکریسی مقامی حکام کو حالات کے مطابق فیصلے کرنے کی اجازت دینے اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے خود کو تیزی سے بدل سکتی ہے؟ نہ صرف صحت اور تحفظ کے معاملات بلکہ نصاب اور درس و تدریس کے طریقوں سے متعلق بھی فیصلوں کا اختیار دیا جانا چاہیے۔

گزشتہ 6 ماہ کے دوران جتنا زیادہ طلبہ کا نقصان ہوا ہے اس کا اثر اس سال کی پڑھائی پر بھی ہوگا۔ اب جب اسکول خود فیصلے کرنا شروع کریں گے تو وہ غلطیاں بھی کریں گے۔ مگر یہ عمل ناگزیر بھی ہے۔ کیا بیوروکریسی خود کو ان غلطیوں کے ساتھ آگے چلنے کے قابل بنا سکے گی اور نادانستہ طور پر ہوجانے والی غلطیوں پر خود کر کارروائی سے باز رکھ سکے گی؟

اسکولوں کی بندش ختم ہونے کے دن بظاہر قریب آ رہے ہیں، جس کے باعث ہمارے بچوں اور اساتذہ میں کورونا وائرس کی منتقلی کا خدشہ پہلے سے بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ کسی نہ کسی موقعے پر ہمیں ایک بار پھر پڑھائی کے عمل کو دوبارہ شروع کرنا ہی پڑے گا اور پاکستان میں گھر بیٹھے یا آن لائن بنیادوں پر ایسا کرنا ممکن نہیں۔

اضافی خطرے سے نمٹنے کے لیے ہمیں ایس او پیز کے نفاذ کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بڑھانا ہوگا اور پالیسی سازی کے عمل کو مقامی سطح پر منتقل کرنا ہوگا۔ یہ دونوں ہی کام کافی کٹھن محسوس ہوتے ہیں۔ اگر نجی اور سرکاری شعبے میں پالیسیاں بنانے اور نافذ کرنے کی صلاحیت میں اعتماد کی کمی کو دیکھیں تو یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ ہم چاہے جو بھی فیصلے کریں مگر سال 21ء-2020ء ایک بہت ہی کٹھن تعلیمی سال ثابت ہونے والا ہے۔


یہ مضمون 24 جولائی 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں