کورونا کے دوران نواز شریف کا باہر نکلنا جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے، میڈیکل رپورٹ

اپ ڈیٹ 28 جولائ 2020
نواز شریف کی کیفے میں بیٹھی تصویر وائرل ہوئی تھی—فائل فوٹو: ٹوئٹر
نواز شریف کی کیفے میں بیٹھی تصویر وائرل ہوئی تھی—فائل فوٹو: ٹوئٹر

لاہور ہائیکورٹ میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی جمع کروائی گئی نئی میڈیکل رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد پلیٹلیٹس، شوگر، دل، گردے اور ہائی بلڈ پریشر کے امراض میں مبتلا ہیں اور کورونا وبا کے دوران ان کا کہیں باہر نکالنا جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔

عدالتی حکم کی روشنی میں امجد پرویز ایڈووکیٹ نے رجسٹرار آفس نواز شریف کی تازہ میڈیکل رپورٹ جمع کروائی۔

مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا کہ نواز شریف پلیٹیلیٹس، شوگر (ذیابیطس)، گردے اور ہائی بلڈ پریشر (بلند فشار خون) کے امراض میں مبتلا ہیں۔

میڈیکل رپورٹ کے مطابق نواز شریف کا کورونا وبا کے دوران کہیں باہر نکلنا جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے، لہٰذا اس وبا کے دوران نواز شریف کو انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: حکومت پنجاب نواز شریف کی طبی رپورٹس سے غیر مطمئن

رجسٹرار آفس میں جمع میڈیکل رپورٹ میں نواز شریف کو جسمانی سرگرمیاں جاری رکھنے کے ساتھ طبی ماہرین سے مسلسل رابطے میں رہنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق نواز شریف کا طبی علاج لندن میں ہی ہو رہا ہے اور ڈاکٹرز نواز شریف کی صحت سے ہر وقت آگاہ ہیں، ساتھ ہی رپورٹ کے مطابق مختلف بیماریوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے نواز شریف اپنی علاج گاہ کے قریب ترین رہیں۔

اس رپورٹ میں کہا گیا کہ نواز شریف دل کے مرض کی وجہ سے انتہائی خطرے میں ہیں اور ان کے دل کو خون کی فراہمی مناسب نہیں ہو رہی ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل 4 اور 15 دسمبر 2019 کو بھی نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس کو ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا تھا جبکہ 13 جنوری، 12 فروری، 18 مارچ اور 28 اپریل کو بھی سابق وزیراعظم کی میڈیکل رپورٹس ہائیکورٹ میں جمع کروائی گئی تھیں۔

نواز شریف کی خرابی صحت اور لندن میں قیام

گزشتہ سال 21 اکتوبر 2019 کو نیب کی تحویل میں چوہدری شوگر ملز کیس کی تفتیش کا سامنا کرنے والے نواز شریف کو خرابی صحت کے سبب تشویشناک حالت میں لاہور کے سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان کی خون کی رپورٹس تسلی بخش نہیں اور ان کے پلیٹلیٹس مسلسل کم ہورہے تھے۔

بعد ازاں ان کی ضمانت پر رہائی کے لیے پہلے لاہور ہائیکورٹ اور بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی جہاں سے انہیں طبی بنیادوں پر ضمانت دیتے ہوئے ان کی سزا کو 8 ہفتوں کے لیے معطل کردیا تھا۔

جس کے ساتھ ہی حکومت نے نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال کر انہیں علاج کے سلسلے میں 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا کہا تھا لیکن حکومت نے شریف خاندان کو 7 سے ساڑھے 7 ارب روپے تک کے انڈیمنٹی بانڈ جمع کروانے کا بھی کہا تھا، جس پر مسلم لیگ (ن) نے حکومت کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے 'جانبدارانہ' اور 'بدلے کی سیاست پر مبنی' قرار دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 'نواز شریف کی رپورٹ پر جس کو شک ہے وہ عدالت میں میرا سامنا کرلے'

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے مذکورہ معاملے پر عدالت جانے کا اعلان کیا تھا اور مسلم لیگ (ن) کی قانونی ٹیم نے انڈیمنٹی بانڈز کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی اور حکومت پر 'گندی سیاست' کرنے کا الزام لگایا تھا۔

بعد ازاں 16 نومبر 2019 کو لاہور ہائی کورٹ نے میڈیکل رپورٹس کی بنیاد پر نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دیتے ہوئے انڈیمنٹی بانڈز کی شرط کو معطل کردیا تھا۔

جس پر سابق وزیراعظم 19 نومبر کو اپنے بھائی شہباز شریف اور ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کے ہمراہ قطر ایئرویز کی ایئر ایمبولینس کے ذریعے علاج کے لیے لندن گئے تھے۔

علاج کے لیے لندن جانے کی غرض سے دی گئی 4 ہفتوں کی مہلت ختم ہونے پر 23 دسمبر کو سابق وزیر اعظم نے بیرونِ ملک قیام کی مدت میں توسیع کے لیے درخواست دی تھی جس کے ساتھ انہوں نے ہسپتال کی رپورٹس بھی منسلک کی تھیں۔

تاہم لندن کے ایک ریسٹورنٹ میں نواز شریف کی تصاویر منظر عام پر آنے کے بعد ان کی بیماری کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا تھا جس پر صوبائی حکومت متعدد مرتبہ ان کی تازہ میڈیکل رپورٹس طلب کی تھیں۔

جس کے بعد جون میں بھی سابق وزیراعظم کی سوشل میڈیا پر لندن کی ایک تصویر وائرل ہوئی تھی جس میں وہ خاندان کے افراد کے ہمراہ ایک کیفے میں موجود تھے۔

اس تصویر کے وائرل ہونے کے بعد حکومتی نمائندوں کی جانب سے نواز شریف پر تنقید کی گئی تھی اور الزام لگایا گیا تھا کہ سابق وزیر اعظم کی تصویر خود لیک کی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں